۱:۱۹:۲(۱۳) [عَھْدَ اللہِ]لفظ ’’عھد‘‘ (جو یہاں اسم جلالت (اللہ)کی طرف مضاف ہوکر آیا ہے) کا مادہ ’’ع ھ د‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’عھِد… یَعْھَد عَھْدًا‘‘(باب سمع سے) صلہ کے بغیر اور ’’اِلیٰ‘‘ کے صلہ کے ساتھ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ صلہ کے بغیر اس کے بنیادی معنی ہیں ’’…کی حفاظت کرنا، یا …کی خبر گیری کرتے رہنا‘‘ مثلاً کہتے ہیں ’’عھِدَ وعدَہٗ (اس نے اپنے وعدہ کی حفاظت کی یعنی نباہا) یا عھِدَ الشییءَ(وہ اس چیز کی بار بار دیکھ بھال کرتا رہا) ـــ اس کے علاوہ یہ فعل ’’کسی کو (کسی جگہ)ملنا‘‘ اور ’’کسی بات کی واقفیت رکھنا‘‘کے معنی بھی دیتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’عھِدہ بمکان کذا‘‘ (وہ اس سے فلاں جگہ ملا) یا ’’عَھِد الامرَ‘‘(اس نے معاملہ کو جان لیا /کا واقف ہوا ـــ
اور ’’الی‘‘ کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی ہوتے ہیں: ’’…کو حکم دینا، …کے ذمے لگانا، سپرد کرنا، …سے عہد لینا‘‘ مثلاً ’’عھِدَ الیہ اَنْ…‘‘ (اس نے اس کو حکم دیا یا اس کے ذمہ لگایا کہ …)۔ قرآن کریم میں زیادہ تر یہ فعل اسی (الی) صلہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ اور قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغے کل ۶ جگہ اور مزید فیہ کے باب مفاعلہ سے فعل کے بعض صیغے کل ۱۱ جگہ آئے ہیں ـــ
- کلمہ ’’عھد‘‘ (جو اس وقت زیر ِمطالعہ ہے) فعل ثلاثی مجرد کا مصدر بھی ہے اور بطور اسم بھی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتاہے۔ مثلاً حسب موقع کسی عبارت میں اس لفظ کی ترجمہ ’’وصیت، نگرانی، عزت کا پاس، قسم، پکا وعدہ، امان، ذمہ داری، ضمانت، ملاقات، پہچان، علم، اقرار، فرمان، پیمان، دوستی اور زمانہ‘‘کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ ان مختلف معانی کی بناء پر عربی زبان، میں لفظ ’’عھد‘‘ کی مختلف تراکیب کے ساتھ کئی محاورے پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’وَلِیُّ العھدِ، قریبُ العھدِ، حدیثُ العھدِ، عھدُ الشباب وغیرہ‘‘ ـــ اردو فارسی میں بھی لفظ ’’عھد‘‘ پکا وعدہ، ذمہ داری، ضمانت اور زمانہ کے معنوںمیں مستعمل ہے اور اس لیے اردو میں اس کا ترجمہ کرنے کی بجائے اصل لفظ (عھد) ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
- قرآن کریم میں یہ لفظ (عَھْدٌ) مفرد مرکب مختلف صورتوں میں تیس کے قریب مقامات پر آیا ہے۔ جن میں سے دس کے قریب مقامات پر یہ صرف ’’اللہ‘‘ کی نسبت (اضافت) کے ساتھ وارد ہوا ہے۔ یعنی ’’عھد اللّٰہِ‘‘ کی ترکیب میں۔ جیسے یہاں زیر مطالعہ آیت میں ہے۔ ا س لیے اس کا ترجمہ ’’اللہ کا اقرار، خدا کا عہد، اللہ کا قول، خدا کا معاہدہ، کیا گیا ہے۔ مگر اردو محاورے کے لحاظ سے یہاں ’’کا‘‘کے استعمال سے معنی واضح نہیں ہوتے (بلکہ ایک پیچیدگی پیدا ہوتی ہے)اس لیے بعض حضرات نے یہاں ’’کا‘‘کے ساتھ لفظی ترجمہ کرنے کی بجائے ’’اللہ سے عہد‘‘کیا ہے اور بعض نے مزید وضاحت کے لیے ’’اللہ سے اپنے معاہدہ کو ‘‘(توڑ دیتے ہیں) کی صورت میں ترجمہ کیا ہے جس میں اصل الفاظ پر ’’اپنے‘‘ کا اضافہ تو ہے مگر مطلب واضح ہوجاتا ہے۔"عھدُاللہ ‘‘ (یعنی اللہ سے کئے ہوئے عہد) کی مزید تفصیل اور وضاحت کے لیے کسی اچھی تفسیر کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔
۱:۱۹:۲(۱۴) ] مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ] یہاں ’’من بعد…‘‘ کے معنی تو ہیں ’’…کے بعد‘‘ ’’…کے پیچھے‘‘ـــ (خالی نقطوں والی جگہ ’’میثاقہ‘‘کے لیے ہے جس کی وضاحت ابھی ہوگی) ـــ ’’بعد‘‘ اور ’’من بعد…‘‘ کے استعمال و معنی کے متعلق البقرہ :ایعنی ۱:۳۳:۲(۷) میں بات ہوچکی ہے۔