اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت ۷۶ اور ۷۷

۴۸:۲      وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚۖ وَ اِذَا خَلَا بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ قَالُوۡۤا اَتُحَدِّثُوۡنَہُمۡ بِمَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ لِیُحَآجُّوۡکُمۡ بِہٖ عِنۡدَ رَبِّکُمۡ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۷۶﴾اَ وَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا یُسِرُّوۡنَ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ ﴿۷۷﴾   

۱:۴۸:۲        اللغۃ

[ وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚۖ ] یہ عبارت البقرہ:۱۴کے ابتدائی حصے کی تکرار ہے۔ اس پر مکمل بحث کے لیے دیکھئے [۱:۱۱:۲]

[ وَ اِذَا خَلَا بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ ] ’’وَاِذَا‘‘ (جب، جس وقت) کئی دفعہ گزر چکا ہے۔ (پہلی دفعہ البقرہ:۱۱ [۱:۹:۲(۱)] میں آیا تھا۔

[خَلَا] کا مادہ ’’خ ل و‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلَ‘‘ ہے اور یہ فعل مجرد ’’خلا یخلُو خلُوًّا‘‘ (خالی ہونا) سے فعل ماضی کا پہلا صیغہ ہے اس فعل مجرد اور اس کے ساتھ ’’إلی‘‘ کے بطور صلہ آنے کی صورت میں (جیسے کہ یہاں ہے ) اس کے معنی و استعمال پر البقرہ:۱۴ [۱:۱۱:۲ (۲)] میں وضاحت ہوچکی ہے۔

’’بَعْضُھُم‘‘  ’’بعض‘‘ کی لغوی بحث [۱:۱۹:۲ (۳)] میں ہوچکی ہے۔ تاہم یہ لفظ اردو میں بھی اتنا متعارف اور مستعمل ہے کہ اس کا ترجمہ تک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اردو میں اس مرکب اضافی (بعضھم)کا محض لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’ان کا بعض یا ان کے بعض‘‘ جس کی بامحاورہ صورت ’’ان میں سے بعض/ کوئی/ کچھ‘‘ بنتی ہے۔

’’الی بعض‘‘کا ابتدائی ’’إلی‘‘ (کی طرف) تو یہاں فعل ’’خَلَا‘‘ کے صلہ کے طور پر آیا ہے اور ’’خلا إلٰی‘‘ کے معنی (اکیلا ہونا، تنہائی میں ملنا وغیرہ ) البقرہ:۱۴ [۱:۱۱:۲ (۲)]میں دیکھ لیجئے۔ یوں ’’بعضھم الی بعض‘‘ کا ترجمہ لفظی بنتا ہے ’’ان کے بعض کسی بعض کی طرف‘‘ جس کی سلیس اور بامحاورہ صورت ’’ایک دوسرے کے پاس، آپس میں اور اپنے لوگوں میں‘‘ اختیار کی گئی ہے۔

۱:۴۸:۲ (۱)     [قَالُوْا اَتُحَدِّثُوْنَھُمْ] ’’قالوا‘‘ کا ترجمہ یہاں ابتدائی ’’اذا‘‘ کی وجہ سے ماضی کی بجائے فعل حال سے ہوگا یعنی ’’وہ کہتے ہیں‘‘۔ اس صیغہ فعل (قالوا) کے مادہ باب تعلیل وغیرہ پر پہلی دفعہ البقرہ:۱۱ [۱:۹:۲ (۴)]میں بات ہوچکی ہے۔

[اَتُحَدِّثُوْنَھُمْ] کا ابتدائی ہمزہ (أاستفہامیہ (بمعنی ’’کیا‘‘) ہے اور آخری ضمیر منصوب (ھم) یہاں بمعنی ’’ان کو/ ان سے‘‘ ہے باقی صیغۂ فعل ’’تُحَدِّثُوْنَ‘‘ ہے جس کا مادہ ’’ح د ث‘‘ اور وزن ’’تُفْعِلُوْنَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’حَدَث یحدُث حُدُوْثًا‘‘ (نصر سے) ’’واقع ہونا اور نیا ہونا (بمقابلہ پرانا ہونا)‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تاہم اس فعل مجرد سے قرآن کریم میں کوئی صیغۂ فعل کہیں نہیں آیا۔ البتہ اس کے بعض مشتقات میں سے کلمہ ’’حدیث‘‘ (بصورت واحد جمع معرفہ نکرہ مفرد (مرکب) بکثرت (۲۶ جگہ) قرآن میں آیا ہے۔ اور مزید فیہ کے ابواب تفعیل اور اِفعال سے مشتق کچھ افعال اور اسماء بھی آٹھ جگہ آئے ہیں۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں