- تمام مشتمل علیہ کلمات کی اس الگ الگ وضاحت کے بعد آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس عبارت (اَنْ یَضرِبَ مَثلاً مَا) کا بالکل لفظی ترجمہ تو ہوگا : ’’کہ وہ بیان کرے مثال کوئی سی بھی‘‘ اسی کو مختلف مترجمین نے ’’کہ بیان کرے کوئی مثال‘‘، ’’کہ بیان کردے کوئی مثال بھی‘‘، ’’کہ کسی چیز کی مثال بیان کرے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے ’’اَن‘‘ کے مصدری استعمال کو سامنے رکھتے ہوئے (جس کا اوپر ذکر ہوا ہے) اس کا عبارت کا ترجمہ ’’مثال بیان کرنے میں‘‘، ’’کسی مثال کے بیان کرنے میں‘‘(نہیں شرماتا، جھینپتا) اور بعض نے مزید وضاحت کے لیے’’کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا جسے تفسیری ترجمہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ ’’سمجھانے کو‘‘کے لیے اصل عبارت میں تو کوئی لفظ نہیں تاہم مفہوم یہی ہے۔
۱:۱۹:۲(۳) [بَعُوْضَۃً] کا مادہ ’’ب ع ض‘‘ اور وزن ’’فَعُوْلَۃٌ‘‘ ہے (جو عبارت میں منصوب واقع ہوا ہے جس کی وجہ آگے ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’بعَض… یَبْعَض بعضًا(البعَوضُ)باب فتح سے آئے تو اس کے معنی ہیں: … کو ’’بعوض‘‘ (مچھروں) نے کاٹا اور ستایا‘‘ یہ فعل اس باب سے (بمعنی ’’کاٹنا‘‘)صرف مچھر کے لیے اور اس کے ذکر (بعوض)کے ساتھ استعمال ہوتا ہے یا پھر بصیغہ مجہول ’’بُعِضَ ‘‘ (بمعنی وہ کاٹا گیا یعنی اسے مچھروں نے کاٹا) استعمال ہوتا ہے، (جیسے زُکِمَ =اسے زکام ہوگیا اور سُرَّ=وہ خوش ہوا میں فعل مجہول استعمال ہوتا ہے)ثلاثی مجرد کے علاوہ عام عربی میں یہ مادہ مزید فیہ کے بعض ابواب (مثلاً افعال، تفعیل اور تفعل)سے بھی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے ـــ تاہم قرآن کریم میں تو اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ قرآن کریم میں تو اس مادہ سے ماخوذ صرف دو(۲) ہی لفظ آئے ہیں۔ ایک تو ’’بَعْضٌ‘‘ جو مختلف تراکیب کے ساتھ قرآن کریم میں ۱۲۹ جگہ آیا ہے (اور جس کے معنی و استعمال کے متعلق اپنے موقع پر بات ہوگی)۔دوسرے(۲) یہ زیر مطالعہ لفظ ’’بعوضۃ‘‘ہے جو صرف اسی ایک جگہ آیا ہے۔
- لفظ ’’بعوض‘‘ کے معنی ’’مچھر‘‘ہوتے ہیں، جب کہ اس کا ذکر بطور ایک جنس کے کیا جارہا ہو جیسے ’’ثمرٌ‘‘ (پھل کی جنس) اور ’’شجَرٌ‘‘(درخت کی جنس) کے لیے آتا ہے۔ اس قسم کے الفاظ کے آخر پر تائے وحدت (ۃ) لگنے سے ان میں (اپنی جنس کے) ایک (فرد)کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ شجرۃٌ=ایک درخت ، ثَمَرَۃٌ=ایک پھل۔ اسی طرح ’’بعوضۃ‘‘کے معنی ہوئے ’’ایک مچھر‘‘ بعض اہلِ لغت مثلا فیروز آبادی)نے ’’بعوض‘‘ کو ’’بعوضۃ‘‘ کی جمع بھی سمجھا ہے۔ (اسم جنس بھی بمعنی جمع استعمال ہوتا ہے)بہر حال ’’بعوضۃ‘‘کے معنی ’’ایک یا کوئی مچھر‘‘ ہی ہیں۔ راغب وغیرہ نے بھی یہ لکھا ہے کہ اسے ’’بعوضۃ‘‘کہنے کی وجہ اس کا چھوٹا سا ہونا ہے گویا اسے ’’بعض ‘‘ (بمعنی ’’کچھ‘‘) سے ایک معنوی مناسبت ہے۔