- زیر مطالعہ کلمہ ’’ لَا تُفْسِدُوْا ‘‘ بھی اس مادہ (فسد) سے باب افعال کا فعل نہی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ باب افعال سے اس فعل ’’اَفْسَد…یُفْسِد، اِفسادًا‘‘ کے معنی ہیں: ’’…کو بگاڑ دینا‘‘، ’’…کو خراب کردینا‘‘، ’’…کے نظام میں گڑبڑ کردینا‘‘ یا ’’ابتری پھیلانا ‘‘ـــ یعنی یہ فعل متعدی ہوتا ہے۔ (اگرچہ یہ کبھی بطور لازم بمعنی ’’فَسَدَ‘‘ بھی استxعمال ہوتا ہے)۔ اس کا مفعول اس کے ساتھ بنفسہٖ(بغیر صلہ کے) آتا ہے جیسے قرآن کریم میں ایک جگہ آیا ہے۔
اَفْسَدُوْهَا (النمل :۳۴) چونکہ اس مادہ (فسد) کے فعل مجرد کا مصدر’’فساد‘‘ اردو میں مستعمل ہے (اگرچہ اپنے اصل عربی مفہوم سے ذرا ہٹ کر) اس لیے اردو میں ’’اِفساد‘‘ (مصدر اِفعال) کا ترجمہ ’’فساد ڈالنا، فساد کرنا اور زیادہ تر فساد پھیلانا‘‘ سے بھی کیا جاتا ہے۔
۱:۹:۲(۴) [فِى الْاَ رْضِ] میں ’’فِی‘‘ تو حرف الجر بمعنی ’’میں‘‘ ہے۔اور الأ رض (جو معرف باللام ہے) کا مادہ ’’ارض‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد باب نَصر، کرُم اور سمِعَ سے مختلف معنوں (مثلاً زمین کا نباتات سے بھر جانا یا لکڑی کودیمک لگ جانا وغیرہ) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دیمک کو عربی میں ’’اَرضۃ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ وہ جس چیز کو کھاتی ہے اسے مٹی کی مانند کردیتی ہے۔ دو سری طرف زمین کو ’’ارض‘‘ کہنے میں یہ مناسبت بھی ہے کہ زمین بھی ، جو اس کے اندر جاتا ہے، اسے دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ عربی زبان میں یہ مادہ (ارض) مزید فیہ کے بعض ابواب سے بھی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتّہ لفظ ’’ارض‘‘ مختلف صورتوں ـــمفرد مرکب معرفہ نکرہ وغیرہ ـــ میں ساڑھے چار سو(۴۵۰ )سے زیادہ دفعہ وارد ہوا ہے۔
- لفظ ’’ارض‘‘ مؤنث سماعی ہے مگر خلافِ قیاس اس کی جمع مذکر سالم کی طرح ’’ارضون ـــ ارضین‘‘ بھی آتی ہے اور مکسر جمع کئی طرح بنتی ہے۔ زیادہ مشہور ’’اراضیٍ‘‘ ہے جو (معمولی فرق کے ساتھ) اردو میں بھی مستعمل ہے۔ (قرآن کریم میں اس (ارض) سے جمع کا کوئی لفظ نہیں آیا ہے)ـــ اردو میں اس کا ترجمہ زیاہ تر’’زمین‘‘ کیاجاتا ہے۔ اور جب یہ لفظ معرف باللام ہو (الا رض) تو عموماً اس سے مراد پورا’’کرہ ارضی‘‘ ہوتا ہے۔ یعنی EARTH PLANET جس پر ہم رہتے ہیں۔ اگرچہ اس سے کبھی کوئی خاص خطہ زمین یا ’’منطقہ‘‘ بھی مراد ہوتا ہے۔ ۔۔اور جب یہ نکرہ (ارض)استعمال ہو تو اس سے مراد بالعموم ’’کرّہ زمین کا کوئی خطہ یا حصّہ‘‘ ہی ہوتا ہے۔ اس وقت اس کا ترجمہ ’’علاقہ، ملک، یا سرزمین‘‘ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
- زیر مطالعہ آیت میں لَا تُفْسِدُوْا (فساد مت ڈالو /پھیلاؤ /کرو) کے بعد ’’ فى الا رض ‘‘ کا لفظی ترجمہ (زمین میں) ہی بہتر ہے۔ اگرچہ بعض مترجمین نے شاید اردو محاورے کے مدِّنظر رکھتے ہوئے اس (فی الارض) کا ترجمہ ’’زمین پر‘‘ سے بھی کیا ہے جو اصل عربی لفظ سے ذرا ہٹ کر ہے۔ اس لیے کہ عربی میں ’’افسد علی الارض‘‘ کہنا درست نہیں ہے مگر اردو میں ’’زمین پر‘‘ یا ’’زمین میں فساد‘‘ دونوں طرح درست ہے۔
[قَالُوا] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلُوا‘‘ ہے۔ شکل اصلی ’’قَوَلُوْا‘‘ تھی جس واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر لفظ ’’ قالوا ‘‘ بن گیا۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے معنی واستعمال پر بات گزر چکی ہے [۱:۷:۲ (۵)پر]فعل ماضی کا صیغہ ہونے کی وجہ سے ’’ قالوا ‘‘ کا ترجمہ ’’انہوں نے کہا‘‘ ہونا چاہئیے تھا مگر اس سے پہلے جملے میں ’’اذا‘‘ کے آجانے کی وجہ سے (جو ظرفیہ شرطیہ ہے) اور ’’جواب ِ شرط‘‘ ہونے کی وجہ سے اب اس کا ترجمہ ’’تو کہتے ہیں/ کہیں گے‘‘ سے ہوگا۔