اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۱ اور ۱۲

۹:۲ وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ ﴿۱۱﴾اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَ لٰکِنۡ لَّا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۲﴾  

۱:۹:۲     اللغۃ

۱:۹:۲ (۱) [ وَاِذَ] ’’ وَ ‘‘ تو ’’اور‘‘ کے معنی میں ہے۔ اور ’’اِذَا‘‘ حرف ہے۔ خیال رہے کہ کلمہ کی اس قسم یعنی کسی ’’حرف‘‘ کے مادہ یا وزن کی بات عموماً نہیں کی جاتی۔ بعض ’’حرف‘‘ بلحاظ مادہ صرف ایک یا دو حروف  پرمشتمل ہوتے ہیں۔[1] مثلاً ’’ وَ ‘‘ یا ’’فی‘‘ اور بعض تین یا اس سے زیادہ حروف مل کر بنے ہوتے ہیں مثلاً ’’عَلٰی‘‘ یا ’’لَعَلَّ‘‘ وغیرہ۔ یہ اپنے ’’ڈھانچہ‘‘ کے لحاظ سے یک حرفی، دو حرفی یا  سہ حرفی ’’مادہ‘‘ پر مشتمل سمجھتے جاتے ہیں اور عربی معاجم (ڈکشنریوں) میں یہ اسی ترتیب کے لحاظ سے مناسب جگہ پر بیان ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’وَ‘‘ پر ’’واو کی پٹی‘‘ (باب الواو) کے شروع میں بات ہوگی اور ’’فِیْ‘‘ پر ’’ف و و‘‘ کے بعد اور ’’ف ی أ ‘‘سے پہلےـــ اور ’’علی‘‘ کے معانی اور استعمالات ’’ع ل و‘‘ کے بعد مگر ’’ع م …‘‘ کی ’’پٹی‘‘ سے پہلے بیان ہوں گےـ  اسی طرح اس حرف ’’ اذا ‘‘ کے معانی و استعمال کی وضاحت مادہ ’’اذی‘‘ کے بیان کے بعد ملے گی ـ  یعنی حروف کو ڈکشنریوں میں عموماً ان کی ابجدی ترتیب کے مطابق جگہ دی جاتی ہے۔ اس لیے کہ ان کی بناوٹ میں کوئی تبدیلی یا تعلیل واقع نہیں ہوتی۔

  • بہر حال یہ حرف (اذا) زیادہ تر دومعنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے:۔

۱۔         ’’جب، جب کبھی یا جب بھی‘‘ کے معنی میں  ـ اور اس وقت اسے ’’ اذا  ظرفیہ یا شرطیہ‘‘ کہتے ہیں۔

۲۔        ’’تو اچانک، ٹھیک اسی وقت، وہیں، ناگہاں، دیکھا تو‘‘ کے معنوں میں اور اس وقت اسے ’’ اذا فجائیہ‘‘ کہتے ہیں۔

  • ’’ اذا ‘‘ظرفیہ عموما زمانہ مستقبل کے لیے آتا ہے ـــ اور چونکہ اس میں شرط کا مفہوم ہوتا ہے اس لیے بھی اس سے حال یا مستقبل (زمانہ) ہی سمجھا جاتا ہے اس لئے کہ شرط ماضی پر نہیں آتی۔ تاہم استعمال کے لحاظ سے ’’ اذا ظرفیہ‘‘ کے بعد زیادہ تر فعل ماضی کا صیغہ آتا ہے(یعنی بصورت جملہ فعلیہ)۔ اگرچہ کبھی فعل مضارع اور بہت کم اس کے بعد کوئی اسم(بصورت جملہ اسمیہ) آتاہے۔ شرط اور مستقبل کے مفہوم کی بناء پر ’’ اذا ‘‘ کے بعد آنے والے فعل ماضی کا ترجمہ حال یا مستقبل میں ہی کیا جاتاہے۔  کبھی ’’ اذا ‘‘ صرف ’’لمّا‘‘ الحینیہ (بمعنی ’’جب‘‘) استعمال ہوتا ہے تو اس سے فعل ماضی ہی سمجھا جاتا ہے۔
  • ’’ اذا فجائیہ‘‘ کے بعد  عموماً کوئی اسم یا کوئی پورا جملہ اسمیہ آتا ہے۔ اور یہ ابتدائے کلام میں استعمال نہیں ہوتا۔ ’’اذا شرطیہ‘‘ کے برعکس اس کو کسی جواب (شرط) کی ضرورت نہیں ہوتی۔

            ’’ اذا  ظرفیہ‘‘ شرطیہ یا غیر شرطیہ اور ’’ اذا  فجائیہ ‘‘ کی مختلف مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔ بلکہ بعض جگہ ایک ہی آیت میں دونوں قسم کے ’’ اذا ‘‘ اکٹھے بھی آجائیں گے۔ ان سب پر اپنے اپنے موقع پر بات کریں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

______________________________________

 [1]  کلمئہ ’’حرف‘‘ دو معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ابجد کے حرف، یعنی ا ب پ ث…… ی تک۔ میں سے ہر ایک ایک حرف ہے ان کو حروف المبانی کہا جاتا ہے۔ دوسرے کلمہ کی سہ گانہ تقسیم (اسم فعل حرف) کے ایک جزء کے طور پر۔ چونکہ یہ مختلف معنی دیتے ہیں۔ اس لیے ان کو حروف المعانی کہا جاتا ہے۔

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں