اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

جو ’’ایمان‘‘ کے اصطلاحی معنوں کی وجہ سے خود بخود سمجھا جاتا ہے۔ لفظ ’’ایمان‘‘ جب مطلقاً بولا جائے تو اس سے کن امور پر ایمان لانا مراد ہوتا ہے؟ اس کا کچھ ذکر تو اسی سورۃ (البقرہ) کی ابتدائی آیات (نمبر۳، نمبر۴) میں گزراہے۔ آگے چل کر بھی قرآن کریم میں متعدد جگہ ’’ایمان‘‘ کے معنی و مطلب کا بیان آئیگا۔

[قَالُوْٓا] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ وزن اصلی ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے۔ شکل ِاصلی ’’قَوَلُوْا‘‘ تھی جس میں واو متحرکہ اپنے ماقبل کے مفتوح ہونے کے باعث ’’الف ‘‘ میں بدل گئی۔ اس مادہ کے فعل ثلاثی مجرد قال یقول قولاً (کہنا) پر بات ہوچکی ہے[۱:۷:۲(۵) میں]

آمَنَّا] کامادہ ’’ا م ن‘‘ اور وزن اصلی ’’اَفعَلْنَا‘‘ ہے۔ یہ بھی (مندرجہ بالا’’آمنوا‘‘ کی طرح) اس مادہ سے باب ِافعال کا فعل ماضی (صیغۂ جمع متکلم) ہے اس کا ترجمہ ہے، ہم ایمان لے آئے ‘‘ یہاں بھی کس پر؟ کا ذکر نہیں کیا گیاـــ اور یہاں بھی لفظ ’’ایمان‘‘ کا مطلق استعمال اس کے اصطلاحی شرعی معنوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

۱:۱۱:۲(۲)      [وَاِذَا خَلَوا] کے ’’واذا‘‘ کے معنی و استعمال کی تفصیل کے لیے دیکھئے البقرہ:۱۲یعنی ۱:۹:۲(۱)ـ  اور ’’خَلَوْا‘‘ کا مادہ ’’خ ل و‘‘ اوروزن اصلی ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’خَلَوُوْا‘‘ تھی۔ جس میں واو الجمع سے ماقبل والا لام کلمہ (و) گرگیا اور اس کے ماقبل عین کلمہ (ل) کی فتحہ (ــــــَــــ) برقرار رہی۔ یوں یہ لفظ ’’خَلَوْا‘‘ بن گیا جس کا وزن اب ’’فَعَوْا‘‘ رہ گیا ہے۔ اس مادہ سے  فعل ثلاثی مجرد ’’خلا یَخلُو خلاءً وخُلُوًّا‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’خالی ہونا‘‘ (یعنی اندر کی ساری چیز کا نکل جانا)۔ اسی سے اس میں کسی چیز یا وقت  وغیرہ کے لیے"گزر جانا" کے معنی پیدا ہوتے ہیں ۔یہ فعل لازم ہے اور ان معنوں کے لیے  اس کے ساتھ کوئی صلہ استعمال نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں یہ زیادہ تر (بیس(۲۰)سے زائد جگہ) اسی طرح (بغیر صلہ) استعمال ہواہےـــ پھر ’’خالی ہونا‘‘ سے ہی اس میں ’’اکیلا ہونا‘‘ اور ’’علیحدگی میں ہونا‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔

  • اس فعل کے ساتھ مختلف صلات (مثلاً ’’بِ، عن، من ، علی، الی ، مع) مل کر اسے مزید مختلف معنی دیتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں یہ صرف ’’الی‘‘ کے صلہ کے ساتھ ہی آیا ہے اور وہ بھی صرف دو جگہ (اسی سورۃ ـــ البقرہ کی آیت نمبر ۱۴ اور  ۷۶ میں) اور ’’خلاالی…‘‘ کے معنی ہیں: …کے پاس اکیلے ہونا، اکیلے جانا، تنہا ہونا، خلوت میں پہنچنا یا … کے ساتھ اکیلے ہونا گویا’’الی‘‘ بمعنی مع (برائے معیت) آتاہے۔ اردو کے اکثر مترجمین نے یہاں اس فعل کا ترجمہ مندرجہ بالا مصدری معنی کے ساتھ کیا ہے۔ کلمہ ’’ خَلَوْا ‘‘ اس فعل (خلایخلو) سے فعل ماضی معروف کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔

۱:۱۱:۲(۳)     [اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ] اس میں ’’ اِلى ‘‘تو گزشتہ فعل (خلوا) کا صلہ ہے۔ جس کے معنی ابھی اوپر بیان ہوئے ہیں۔ یہ (اِلی) مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ حسب موقع ’’…تک‘‘ (یعنی کسی وقت تک یا کسی جگہ تک) ، …کے پاس، …کے نزدیک، …کے لیے، …کے ساتھ، سے کیا جاسکتا ہے ـــ اور کلمہ ’’شیاطین‘‘(جو یہاں ضمیر"ھم"کی طرف مضاف ہے) لفظ "شیطان" کی جمع ہے۔ اس کے مادہ اور اس کے معانی پر ’’استعاذہ‘‘ کی بحث میں بات ہوئی تھی۔ یعنی اس کا مادہ ’’ش ط ن‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور ’’ش ی ط‘‘ بھی ـــ اور اس طرح اس لفظ (شیطان) کا وزن پہلی صورت میں ’’فَیْعال‘‘ اور دوسری صورت میں ’’فُعْلانٌ‘‘ ہوگا۔ اس طرح لفظ ’’شیاطین‘‘ (بصورت جمع) کا وزن (شطن سے ’’فَیاعیل‘‘ اور (شیط سے) ’’فعالین‘‘ بنتا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں