اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت ۶۷۔۶۸

  وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖۤ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تَذۡبَحُوۡا بَقَرَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَتَّخِذُنَا ہُزُوًا ؕ قَالَ اَعُوۡذُ بِاللّٰہِ اَنۡ اَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۶۷﴾قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا ہِیَ ؕ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوۡلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِکۡرٌ ؕ عَوَانٌۢ بَیۡنَ ذٰلِکَ ؕ فَافۡعَلُوۡا مَا تُؤۡمَرُوۡنَ ﴿۶۸﴾  

۱:۴۳:۲        اللغۃ

[وَ اِذْ قَالَ مُوْسیٰ لِقَوْمِہٖ] اس پورے جملے اور اس کے تمام اجزاء (کلمات) کی مکمل وضاحت البقرہ:۵۴ [۱:۳۴:۲ (۱)]میں ہوچکی ہے اور الگ الگ ’’وَ ‘‘ [۱:۷:۲ (۱)] اور ’’اِذْ ‘‘ [۱:۲۱:۲ (۱)] ’’قال‘‘ [۱:۲۱:۲ (۲)]  ’’ موسٰی  ‘‘ [۱:۳۳:۲ (۲)] اور ’’لقومہ‘‘ [۱:۳۴:۲ (۱)] میں دیکھئے۔

  • اس عبارت کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’اور جب کہا موسٰی ؑ نے اپنی قوم کو‘‘ جس کی سلیس بامحاورہ صورت ہے ’’جب موسٰیؑ نے اپنی قوم سے کہا‘‘ بعض مترجمین نے احتراماً  ’’ کہا  ‘‘ کی بجائے ’’ فرمایا ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے ۔ او ربعض نے ’’ اپنی قوم سے ‘‘ کی بجائے ’’اپنی قوم کے لوگوں سے‘‘ کی صور ت میں ذرا وضاحتی ترجمہ کردیا ہے۔ بعض نے ترجمہ کے شروع میں ’’اذ‘‘ کی ظرفیت کی بناء پر ’’وہ وقت یاد کرو‘‘ (جب) کا اضافہ کیا ہے۔

[اِنّ اللہَ یَأْمُرُکُمْ] یہ جملہ ’’اِنّ‘‘ (بے شک) + ’’ اﷲ ‘‘(اللہ تعالیٰ)+ ’’یأْمُرُ ‘‘(حکم دیتا ہے) +’’کُمْ ‘‘(تم کو) کا مرکب ہے۔ اس میں فعل ’’یَأْمُرُ‘‘ کا مادہ ’’ اَ م ر‘‘ اور وزن ’’یَفْعُلُ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (اَمَر یامُر = حکم دینا) کے باب اور معنی و استعمال پر البقرہ:۲۷ [۱:۲۰:۲ (۵)] میں بات کی جاچکی ہے۔ اس طرح اس عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’بے شک اللہ حکم دیتا ہے تم کو‘‘۔ بعض نے ’’اِنَّ‘‘ کا ترجمہ لفظ ’’تحقیق‘‘ سے کیا ہے۔ جب کہ بعض نے غالباً اردو محاورے کی بناء پر ’’اِنّ‘‘ کا ترجمہ نظر انداز کرتے ہوئے ترجمہ صرف ’’تمہیں اللہ حکم دیتا ہے‘‘۔ یا اسم جلالت (اللہ) کی بجائے فارسی میں مستعمل لفظ ’’خدا‘‘ استعمال کیا ہے یعنی ’’خدا تمہیں حکم دیتا ہے‘‘ بعض نے احتراماً ’’اللہ فرماتا ہے تم کو‘‘ اور ’’اللہ تم سے فرماتا ہے‘‘ کو اختیار کیا ہے۔ بعض نے مزید احترام کے لیے اردو محاورے میں بصیغہ تعظیم (جمع) استعمال کیا ہے یعنی ’’اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتے ہیں‘‘ کی صورت میں ترجمہ کردیا ہے اور بعض نے محاورہ اور اختصار کو یوں جمع کردیا ہے ’’اللہ کا حکم تم کو یہ ہے‘‘ ان تمام تراجم کا مفہوم ایک ہی ہے صرف الفاظ کے انتخاب کا فرق ہے۔

۱:۴۳:۲ (۱)     [اَنْ تَذْبَحُوْا] اس میں ’’ اَن ‘‘ مصدریہ ناصبہ ہے جس کا اردو ترجمہ ’’یہ کہ‘‘ یا صرف ’’  کہ‘‘ ہے۔ اس سے پہلے ایک باء (بِ) محذوف ہے جو سابقہ فعل (اَمَرَ) کے دوسرے مفعول ( جس بات کا حکم دیا جائے یعنی ’’ماموربہٖ‘‘ ) کے شروع میں لگتی ہے اور اگر وہ بات ’’ اَن ‘‘ سے شروع ہونے والا کوئی جملہ ہو (جیسے یہاں ہے) تو یہ ’’باء‘‘ (ب) محذوف کردی جاتی ہے ’’اَن‘‘ کے معانی و استعمالات پر البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲ (۲)] میں بات ہوئی تھی۔ ’’تَذْبَحُوْا‘‘ کا مادہ ’’ذب ح‘‘ اور وزن ’’تَفْعَلُوْا‘‘ ہے جو دراصل ’’تَذْبَحُوْنَ‘‘تھا۔ مگر شروع میں ’’أن‘‘ (ناصبہ) لگنے سے منصوب ہوکر اس کا آخری ’’ ن ‘‘ گرگیا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں