اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ
  • زیر مطالعہ فعل ’’یستحی‘‘اس مادہ سے باب استفعال کے فعل مضارع کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’اِسَتحْییٰ… یَسْتَحْیِیْ‘ اِسْتِحْیَاءً‘‘کے تین معنی ہیں: (۱) … سے شرمانا، …سے جھینپنا، …سے عار کرنا(یعنی نفس کا کسی کام کی برائی کی وجہ سے اس کے کرنے میں گھٹن محسوس کرنا)  (۲) …کو زندہ بچالینا، اور اسی سے تیسرے معنی پیدا ہوتے ہیں یعنی …کوباقی چھوڑنا یا چھوڑ دینا۔

        پہلے معنی کے لیے اس کا مفعول بنفسٖہ بھی آتا ہے اور ’’مِنْ‘‘کے صلہ کے ساتھ بھی۔ مثلاً کہتے ہیں: استحیاہ اور استحییٰ منہ (وہ اس سے شرمایا) اور کبھی ’’من‘‘ کی بجائے ’’أَنْ‘‘ لگا کر ساتھ فعل مضارع کا ایک صیغہ لاتے ہیں مثلاً کہیں گے: ’’یَسْتَحْیِیُ أن…‘‘= وہ اس بات سے شرماتا ہے کہ …)‘‘ جیسے یہاں آیتِ زیر مطالعہ میں ’’لایستحیی اَن یضربَ…‘‘ آیا ہے۔ یہاں بھی دراصل ’’اَن "سے پہلے ایک ’’مِن‘‘ محذوف سمجھا جاتا ہے یعنی ’’…مِنْ اَن یضربَ…‘‘ ہے۔

دوسرے اور تیسرے  معنی کے لیے کوئی صلہ استعمال نہیں ہوتا بلکہ مفعول بنفسہٖ آتا ہے مثلاً استحیاہ=اسے زندہ بچالیا، رہنے دیا۔ یہ استعمال بھی قرآن کریم میں آگے آئے گا۔

  • بعض قبائل عرب (مثلاً بنو تمیم)اس فعل کو ’’استحیٰ یَسْتَحِیِ ‘‘ یعنی صرف ایک ’’یاء‘‘ (ی) سے بولتے ہیں مگر اہل حجاز کی بولی ’’استحْیٰی یَسْتَحْیِیُ‘‘ یعنی دو ’’یاء‘‘ کے ساتھ ہے۔ اور یہی بولی قرآن کریم میں آئی ہے۔ (بلحاظ ’’رسم‘‘ ایک ’’یاء‘‘ سے لکھا جانااور بات ہے تلفّظ میں دو ’’یاء‘‘ ہی آتی ہیں) ـــ اور یہ دو یاء والااستعمال اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ صَرفی قواعد کے مطابق لفیف مقرون (فعل) میں تعلیل صِرف لامِ کلمہ میں ہوتی ہے عین کلمہ میں نہیں ہوتی۔ ایک ’’یاء‘‘ کے ساتھ پڑھنے میں لام کَلمہ اور عین کلمہ دونوں میں تعلیل کردی جاتی ہے۔ جس کی اَفعال میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہوسکتا ہے کہ کثرتِ استعمال کی بناء پر ہی دوسری ’’یاء‘‘ کو بھی گرا دیا جاتا ہو۔ بہر حال یہ اہلِ حجاز کی لغت نہیں اور قرآن کریم میں استعمال بھی نہیں ہوئی۔
  • زیرِ مطالعہ آیت میں اس فعل کے دوسرے (مندرجہ بالا) معنی (یعنی زندہ بچالینا) تو فٹ نہیں آئے۔اس لیے اردو فارسی تمام مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’شرمانا، جھینپنا، عارکرنا، شرم آنا‘‘ سے ہی کیا ہے۔ مثلاً ’’اللہ کچھ شرماتا نہیں ، جھینپتا نہیں، حیاء نہیں فرماتا، عار نہیں کرتا، ذرا نہیں شرماتا‘‘ کی صورت میں۔ البتہ بعض مفسّرین نے تیسرے معنی (باقی چھوڑنا)کو سامنے رکھتے ہوئے (اور بعض اہلِ لغت کے ’’استحیاء‘‘ کے ایک معنی استبقاء یعنی باقی چھوڑنا ۔۔۔بیان کرنے کی وجہ سے)’’ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْىٖٓ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا ‘‘ ـــ کے معنی ’’اللہ کسی (چھوٹی سے چھوٹی) چیز کو بھی نہیں چھوڑتا مثال بیان کرنے کے لیے‘‘ کی صورت میں بیان کئے ہیں۔ تاہم کسی مترجم نے ان معنی کو نہیں لیا۔ اور عام مفسرین نے بھی اسے (غالباً تکلف سمجھتے ہوئے) نظر انداز کیا ہے۔

۱:۱۹:۲(۲)     [اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا]یہ چار کلمات (اَنْ يَضْرِبَ +مَثَلاً+ما) کا مجموعہ ہے جن کی الگ الگ وضاحت کی جائے گی۔ تاہم ان سب کو یکجا اس لیے لیا گیا ہے کہ ان سب کے ملنے سے ہی عبارت کا ایک مربوط مفہوم سامنے آتا ہے۔ جسے آخر پر بیان کیا جائے گا۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں