اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرۃ  آیت ۶۱

وَ اِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نَّصۡبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُخۡرِجۡ لَنَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ مِنۡۢ بَقۡلِہَا وَ قِثَّآئِہَا وَ فُوۡمِہَا وَ عَدَسِہَا وَ بَصَلِہَا ؕ قَالَ اَتَسۡتَبۡدِلُوۡنَ الَّذِیۡ ہُوَ اَدۡنٰی بِالَّذِیۡ ہُوَ خَیۡرٌ ؕ اِہۡبِطُوۡا مِصۡرًا فَاِنَّ لَکُمۡ مَّا سَاَلۡتُمۡ ؕ وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ ﴿٪۶۱﴾

۱ ۳۹:۲      اللغۃ

[وَاِذْ] میں ’’وَ‘‘ مستانفہ ہے اس کے معانی و استعمالات کے لیے چاہیں تو البقرہ:ـ ۸ [۱:۷:۲(۱)]میں دیکھ لیجئے اور’’اِذْ‘‘ ظرفیہ بمعنی ’’جب/ جس وقت‘‘ ہے اس کے طریق استعمال کے لیے دیکھئے البقرہ:۳۰ [۱:۲۱:۲(۱)]اور یہ پوری ترکیب ’’وَاذ‘‘ (اور جب) اس سے پہلے کئی دفعہ گزر چکی ہے۔

[قُلْتُمْ] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلْتُمْ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’قَوَلْتُمْ‘‘ تھی۔ اس میں واقع ہونے والی تعلیل وغیرہ (یعنی قوَلْتُمْ قالْتُمْ قَلْتُمْ قُلْتُمْ) پر البقرہ:۵۵ [۱:۳۵:۲ (۱)]میں بات ہوئی تھی۔ اور مادہ (قول) سے فعل مجرد کے معنی و استعمال پر بحث البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۵)]میں ہوئی تھی۔ لفظ ’’قُلتم‘‘ اس فعل مجرد (قال یقول= کہنا) سے فعل ماضی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے اس کا ترجمہ ہے ’’تم نے کہا‘‘ مگر اس کے شروع میں ’’واذ‘‘ (اور جب) آجانے کی وجہ سے اس کا ترجمہ ’’تم نے کہا تھا‘‘ ہوسکتا ہے۔

[یٰمُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ]میں ابتدائی ’’یا‘‘ ندا کے لیے ہے اور یوں ’’یا موسی‘‘ (برسم املائی) کا ترجمہ ہے ’’اے موسیٰ (علیہ السلام ) ’’لن نصْبِر‘‘ کا مادہ ’’ص ب ر‘‘ اور وزن’’لَن نَفعِلَ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد  (صبَر یصبِر = صبر کرنا) کے معنی باب اور استعمال وغیرہ پر تفصیلی بحث البقرہ:ـ ـ۴۵ [۱:۳۰:۲(۱)]میں ہوچکی ہے۔

’’لَنْ نَصبِرَ‘‘  اس فعل مجرد سے فعل مضارع منفی ’’بِلَنْ‘‘  کا صیغہ جمع متکلم ہے جس میں ضمیر الفاعلین ’’نحن‘‘ مستتر ہے۔ فعل مضارع کی اس قسم کی نفی (بِلَنْ) سے اس (مضارع) کی صورت اور معنی پر جو اثر پڑتا ہے اس کے متعلق البقرہ:۲۴ [۱:۱۷:۲(۱۱)]میں بات ہوچکی ہے۔

اس کے مطابق یہاں ’’لن نصبر‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’ہم ہرگز صبر نہ کریں گے‘‘ چنانچہ بعض مترجمین نے یہی ترجمہ رہنے دیا ہے۔ بعض حضرات نے ’’صبر‘‘ کے اصل بنیادی معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’ہم ہرگز نہ ٹھیریں گے‘‘ اور ’’ہم کبھی نہ رہیں گے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے بعض نے اردو محاورے کا خیال کرتے ہوئے ’’ہم سے نہیں رہا جاتا، ہم سے ہرگز صبر نہ ہوگا،ہم سے کبھی صبر نہ ہوسکے گا، ہم سے صبر نہیں ہوسکتا‘‘ اور ’’ہم بس نہیں کرسکتے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے اور مضارع میں منفی کے زور (اور زمانۂ مستقبل کے مفہوم) کو ’’نہیں کرسکتے، نہیں ہوسکتا، نہیں ہوسکے گا‘‘ وغیرہ سے ظاہر کیا گیا ہے۔

قرآن کریم میں اس فعل مجرد (صبر یصبر) سے افعال کے مختلف صیغے ۵۵ سے زیادہ جگہ آئے ہیں۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں