اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرۃ  آیت نمبر ۴۵  اور  ۴۶

۳۰:۲   وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ وَ اِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾الَّذِیۡنَ یَظُنُّوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّہِمۡ وَ اَنَّہُمۡ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿٪۴۶﴾  

۱:۳۰:۲       اللغۃ

 [وَاسْتَعِیْنُوْا]میں ابتدائی واو عاطفہ کو نکال کر باقی ’’استعینوا‘‘ کا مادہ ’’ع و ن‘‘ اور وزن اصلی ’’اِسْتَفْعِلُوْا‘‘ہے اس کی اصلی شکل ’’اِسْتَعْوِنُوْا‘‘تھی جس میں عربوں کے طریقِ تلفظ کے مطابق: ’’متحرک‘‘’’واو‘‘ کی حرکت (ــــــِــــ)اس کے ماقبل ساکن حرفِ صحیح (ع) کو دے کر خود اس (واو) کو اپنے ماقبل کی نئی حرکت (ــــــِــــ) کے موافق حرف (ی) میں بدل کر بولا اور لکھا جاتا ہے یعنی ’’اِسْتَعْوِنُوْا=   اِسْتَعِوْنُوْا ہوجاتا ہے۔

  • یہ کلمہ ’’استَعِیْنُوا‘‘اس مادہ (ع ون)سے باب استفعال کا فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس کا ترجمہ ’’تم مدد طلب کرو‘‘ہے اس مادہ (ع و ن) سے فعل مجرد نیز اس باب (استفعال) کے معانی اور استعمال پر اس سے پہلے الفاتحہ:۵ [۱:۴:۱(۴)]میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

۱:۳۰:۲(۱)     [بِالصَّبْرِ] کی ابتدائی ’’باء(بِ)‘‘ کے معنی یہاں استعانت کے ہیں یعنی ’’کے ذریعے، کی مدد سے"

 [استعاذہ کی بحث میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ باء الجر(بِ) بلحاظ معنی عموماً مصاحبت(۱)، استعانت(۲)، سببیت(۳)، تعویض(۴)، بدل(۵)، ظرفیت (۶)اور قسم (۷)کے لیے استعمال ہوئی ہے جس کا اردو ترجمہ حسب موقع (علی الترتیب) (۱)…کے ساتھ (۲) کے ذریعے یا کی مدد سے (۳) … کی بناء پر یا کے سبب سے(۴) … کے بدلے (۵) کی بجائے (۶) کے پاس سے یا کے وقت اور (۷) … کی قسَمَ ہے‘‘ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ کبھی یہ باء الجر بعض دوسرے حروف جارہ مثلاً  ل، فی، من، عن، علٰی، اِلٰی اور مَعَ کے معنی میں بھی آتا ہے۔ کبھی مَا(الحجازیۃ۔ نافیہ) کی خبر پر داخل ہو کر اس میں زور اور تاکید کے معنی پیدا کرتا ہے۔ اور اکثر فعل لازم کو متعدی بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ استعاذہ کی بحث میں چونکہ حوالہ کے لیے پیرا گرافنگ (قطعہ بندی) اختیار نہیں کی گئی تھی۔ اس لیے یہاں ہم نے اس کا اعادہ کر دیا ہے۔ آئندہ یہی حوالہ دیا جائے گا]۔

اور کلمہ [الصَّبْرِ] کا مادہ ’’ص ب ر‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فَعْلٌ‘‘ہے (جو یہاں مجرور ہے بوجہ ’’با‘‘)۔ اس مادہ سے فعل مجرد صبَر … یصبِر صَبْرًا (ضرب سے)کے بنیادی معنی ہیں: ’’…کو روک رکھنا، …کو قابو میں رکھنا‘‘عموماً اس سے ’’اپنے آپ کو کسی قابلِ مذمت کام سے روکنا‘‘مراد ہوتا ہے۔ خصوصًا تکلیف یا مصیبت کے وقت اپنے اعضاء اور حواس کو قابو رکھنا اور کسی قسم کی گھبراہٹ یا بدحواسی اظہار نہ کرنا‘‘کے لیے استعمال ہوتا ہےــ 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں