- قرآن کریم میں یہ لفظ (دُوْنَ) ’’مِن‘‘ کے بغیر صرف ۹ جگہ مگر ’’مِن‘‘ کے ساتھ ۱۳۲ جگہ آیا ہے ـــ زیر مطالعہ آیت میں مترجمین نے عموماً اس کا ترجمہ ’’…کے سوا، …سے الگ اور … کے مقابلے پر‘‘ سے کیا ہے۔
۱:۱۷:۲(۱۰) [اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ] میں ’’ اِن ‘‘ شرطیہ بمعنی ’’اگر‘‘ہے اور ’’ كنتم ‘‘ فعل ناقص بمعنی ’’تم ہو‘‘ہے۔ ان دونوں کلمات (’’ان‘‘ اور ’’کنتم‘‘) پر ذرا تفصیلی لغوی بحث اوپر اسی زیرِ مطالعہ آیت کے شروع میں ہوچکی ہے۔دیکھئے ۱:۱۷:۲(۱)
- ’’ صٰدقين‘‘جس کی عام عربی املاء ’’صادقین‘‘ ہے کا مادہ ’’ص د ق‘‘اور وزن ’’فاعلین‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد’’ صدَق … یصدُق صدقًا‘‘ (باب نصر سے)آتا ہے اور یہ لازم و متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اس کے بنیادی معنی توہیں (۱) ’’سچا ہونا، سچ بولنا یا سچ کہنا‘‘ مگر کبھی یہ (۲) ’’سے سچ بولنا، …کا وفادار رہنا، …کو سچاکرنا یعنی اس کا سچ ثابت کرنا‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس (دوسری) صورت میں اس کا مفعول ـــ بلکہ بعض دفعہ دو مفعول ـــ مذکور ہوتے ہیں۔ یعنی (۱) جس سے سچ بولا جائے اور (۲) جس چیز کے بارے میں سچ بولاجائے ـــ دونوں ہی مفعول منصوب(بغیر صلہ کے۔ بنفسہ) ہوکر آتے ہیں۔ جیسے ’’ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗٓ (آل عمران: ۱۵۲) یا ’’ ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ (الانبیاء:۹)میں ہے ان تمام استعمالات کی مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔
- ’’صادقِین‘‘ کا واحد ’’صادق‘‘ہے جو اس فعل مجرد (صَدق) سے اسم الفاعل ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ ’’سچ بولنے والا‘‘ کی بجائے صرف ’’سچا‘‘ (اسم ِصفت) سے کرتے ہیں۔ یہ مادہ (ص دق) مجرد کے علاوہ مزید فیہ کے مختلف ابواب (تفعیل اور تفعل) سے بھی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے ـــ قرآن کریم میں اس سے فعل مجرّد کے صیغے ۱۵ جگہ اور مزید فیہ کے ابواب سے اَفعال کے مختلف صیغے ۱۶ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ثلاثی مجرد مزید فیہ کے مختلف مصادر اور اسماء مشتقہ کے مختلف صیغے سو (۱۰۰)سے زیادہ جگہ آئے ہیں۔ ان سب پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی۔ان شاء اللہ
۱:۱۷:۲(۱۱) [فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا] یہ دراصل چار کلمات یعنی ف+اِنْ +لَمْ+تَفْعَلُوْا کا مرکب ہے۔ ابتدائی فاء (فَ) یہاں حرف ِربط کا کام دے رہی ہے اس کا اردو ترجمہ ’’پھر‘‘ یا ’’پس ‘‘ ہی ہوگا۔ اور ’’اِنْ‘‘ حرف ِشرط ہے۔ بمعنی ’’اگر‘‘۔
’’فَ‘‘ کے معنی و استعمالات کی مزید وضاحت کے لیے البقرہ: ۲۲ یعنی ۱:۱۶:۲(۱۰) اور ’’اِنْ ‘‘ کے معانی و استعمالات کے لیے (اوپر) البقرہ: ۲۳ ـــ ۱:۱۷:۲(۱)دیکھئے۔ ’’ لَمْ ‘‘ حرفِ جازم ہے۔ جس کے الگ اپنے کوئی معنی نہیں ہوتے مگر یہ فعل مضار ع کی شکل اور معنی میں تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ یعنی یہ (لَمْ) فعلِ مضارع پر داخل ہو (یعنی پہلے آئے)تو اس (فعل مضارع) کو مجزوم کردیتا ہے اور بلحاظ معنی اس (مضارع) میں فعل ماضی منفی بجحد یعنی زور اور تاکید کے ساتھ نفی کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔