اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرۃ  آیات ۵۵ اور ۵۶

۳۵:۲      وَ اِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ ﴿۵۵﴾ثُمَّ بَعَثۡنٰکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۵۶﴾ 

۱:۳۵:۲     اللغۃ

[وَاِذْ] یہ اس سے پہلے البقرہ:۵۱ ،۵۳ [۱:۳۳:۲]اور البقرہ:۴۹ ، ۵۰ [۱:۳۲:۲]میں گزر چکا ہے۔ (یعنی پانچ دفعہ قریباً) ترجمہ اس کا ‘‘ اورجب کہ‘‘ ہی ہوگا۔

[قُلتُمْ] کامادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلْتُمْ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’قَوَلْتُمْ‘‘ تھی۔ اجوف (جیسا کہ ’’ق ول‘‘ ہے) سے فعل مجرد کے فعل ماضی کی گردان کے آخری (۹) نو صیغوں (جمع مونث غائب  تا جمع متکلم) میں حرف علت (و یا ی) تلفظ اور کتاب سے ساقط کردیا جاتا ہے اور ان (نوصیغوں)میں باب نصر اور کرم کی صورت میں فاء  کلمہ کو (جو یہاں ’’ق‘‘ ہے) ضمہ (ــــُـــــ) دے دیا جاتا ہے اور باقی تمام ابواب (مجرد) میں فاء کلمہ کو کسرہ (ـــــِــــ) دی جاتی ہے۔ اس طرح قَوَلْتُمْ قَالْتُمْ  (واو متحرک ماقبل مفتوح الف میں بدل گئی) = قَلْتُمْ (التقائے ساکنین ’’الف ول‘‘ کے باعث الف کے گر جانے سے) = قُلْتُمْ (کیونکہ یہ فعل باب نصر سے ہے لہٰذا فاء کلمہ مضموم ہوگیا)

اس مادہ سے فعل مجرد ’’قال یقول قولاً‘‘ (بمعنی کہنا) کے اب تک متعدد صیغے گزر چکے ہیں ویسے اس فعل کے باب، بمعنی اور استعمال پر البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۵)] میں مفصل بات ہوچکی ہے ’’قُلْتُمْ‘‘ اس فعل مجرد سے ماضی معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس کا ترجمہ ہے ’’تم نے کہا‘‘:

[یٰمُوْسیٰ] میں ’’یا‘‘ تو حرف ندا بمعنی ’’اے‘‘ ہے یعنی ’’اے موسیٰ‘‘ اردو محاورے  میں یہاں حرف ندا کا ترجمہ حذف بھی ہوسکتا ہے۔

۱:۳۵:۲ (۱)     [لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ]میں ’’نوْمن‘‘ کا مادہ ’’ا م ن‘‘ اور وزن ’’نُفْعِلَ‘‘ ہے۔ یعنی یہ اس مادہ (أمن) سے باب افعال (آمن یومن) کے فعل مضارع کا صیغہ جمع متکلم ہے جو ’’لَنْ‘‘ کی وجہ سے منصوب ہوکر آیا ہے۔یہ حرف (لَنْ) مضارع میں بزمانۂ مستقبل زور اور تاکید کے ساتھ انکار اور نفی کے معنی پیدا کرتا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ’’ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ‘‘ یا صرف ’’ہرگز نہیں‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔ اس مادہ (أمن) سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۳ [۱:۲:۲(۱)]میں بات ہوئی تھی۔ وہاں اس کے بابِ افعال اور استعمال کے ضمن  میں یہ بھی  بیان ہوا تھا کہ یہ فعل (آمن یؤمن) صلہ کے بغیر اور مختلف صلات کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے مثلاً ’’اَمَنَ ب. . . . . ‘‘کے معنی ہیں: ’’ . . . . پر ایمان لانا‘‘ اور ’’آمن ل. . . . ‘‘ کا مطلب ہے ’’ . . . . کو باور کرنا. . . .  کی بات سچی ماننا . . . .  کا یقین کرلینا‘‘ یہاں زیر مطالعہ عبارت میں جو فعل کے ساتھ ’’لَکَ‘‘ لگا ہے (جس کا لفظی ترجمہ تو ’’تیرے لیے‘‘ ہونا چاہیئے) اس میں لام الجر (جو ضمیر کے ساتھ مفتوح آیا ہے) فعل (آمن) کا صلہ ہے جس کے معنی اوپر بیان ہوئے ہیں۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں