اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

[بِا تِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ]یہ  ’’بِ + اتخاذ کم العجل‘‘ کا مرکب ہے یہاں ’’باء‘‘(بسببیت کے لیے ہے جس کے معنی ہیں:’’ . . . کی وجہ سے/ کے ذریعے/ کے سبب سے‘‘۔  ’’باء‘‘ کے مختلف معانی اور استعمال کی بحث ’’استعاذۃ‘‘ میں اور پھر البقرہ:۴۵ [۱:۳۰:۲ (۱) ]میں ہوچکی ہے [اتخاذٌ]کا مادہ ’’ا خ ذ‘‘ یا (بقول بعض ’’ت خ ذ‘‘) ہے اور وزن ’’اِفتعال‘‘  ہے یعنی یہ باب افتعال کا مصدر ہے (جو عبارت میں خفیف اور مجرور ہے جس کی وجہ ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی)۔ اس مادہ (اخذ) سے فعل مجرد کے باب و معنی پر البقرہ:۴۸ [۱:۳۱:۲ (۵)]میں بات ہوئی تھی۔ اور باب افتعال کے فعل  (اتخذ یتخذ) کے معنی وغیرہ پر مفصل بحث البقرہ:۵۱ [۱:۳۳:۲ (۵)] میں کی جاچکی ہے۔ (بنانا، پکڑنا، بنا لینا وغیرہ)  [العجل] کے مادہ اور معنی وغیرہ پر اوپر البقرہ:۵۱ [۱:۳۳:۲ (۶)]میں ـ  اس کا ترجمہ ’’بچھڑا‘‘ ہے۔

اس ترکیب (باتخاذکم العجل) کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’بسبب تمہارے پکڑنے/بنانے بچھڑے کو کے‘‘ جس کا سلیس اور بامحاورہ ترجمہ ’’تمہارا بچھڑے کو بنا لینے کی وجہ سے‘‘، ’’تمہارا بچھڑے کو اختیار کرنے/مقرر کرلینے کے سبب سے‘‘ کیا گیا ہے۔ جسے بعض نے مصدر کی بجائے حال سے ترجمہ کیا ہے: ’’بچھڑے کو بنا کر، ٹھہرا کر‘‘ اور بعض نے تفسیری ترجمہ ’’پوج کر‘‘ کر لیا ہے اوربعض نے محاورہ، اختصار (اور تفسیر ) کو سامنے رکھتے ہوئے ’’اپنی گوسالہ پرستی/ گوسالہ گیری/ سے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ اس عبارت پر مزید بحث حصہ  ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی جس سے ان مختلف تراجم میں فرق کی نحوی بنیاد کا پتہ چلے گا۔

۱:۳۴:۲ (۲)     [فَتُوْبُوْا] میں ابتدائی فا (فَ) تو عاطفہ (بمعنی پس، اس لیے) ہے۔

اور  [تُوْبُوْا] کا مادہ ’’ت و ب‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعَلُوْا‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’اُتْوُبُوْا‘‘ تھا جس میں متحرک حرف علت (جو یہاں ’’وُ‘‘ ہے) کی حرکت (ــــُـــــ)اس سے ماقبل حرف صحیح(جو یہاں ’’ت‘‘ ہے) کو  دے دی جاتی ہے۔ پھر ابتدائی ہمزۃ الوصل کو (کتابت اور تلفظ دونوں میں) ساقط کردیا جاتا ہے ۔ کیونکہ اب ’’ت‘‘ کے متحرک ہوجانے کی بنا پر اس کی ضرورت نہیں رہتی گویا ’’اُتْوُبُوْاُتُوْبُوْا تُوْبُوْا‘‘  (جس کاوزن اب ’’فُوْلُوْا‘‘ رہ گیا ہے)

  • اس ثلاثی مادہ (توب) سے فعل مجرد ’’تاب یتوب تَوْبۃً‘‘ (توبہ کرنا، باز آنا وغیرہ) کے باب، معنی اور مختلف صلات کے ساتھ استعمال کے بارے میں البقرہ: ۳۷ [۱:۲۷:۲ (۳)]میں وضاحت کی جاچکی ہے [تُوْبُوْا] اس فعل مجرد سے فعل امر معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس کا ترجمہ ہے ’’تم باز آجاؤ/ توبہ کرو‘‘ جسے بعض مترجمین نے ’’تم متوجہ ہو/ رجوع لاؤ‘‘ کی صورت  میں ترجمہ کیا ہے جو اس فعل (تاب یتوب) کے بنیادی معنی (  لوٹنا، توجہ کرنا، رجوع کرنا) پر مبنی ہے۔ اس سے فعل امر کی گردان ہوگی تُبْ۔ تُوْبا۔ تُوْبُوا۔ تُوْبِی۔ تُوْبا۔ تُبْن۔

۱:۳۴:۲ (۳)          [اِلٰی بَارِئِکُمْ ]یہ ’’الی بَارِیْ + کُمْ‘‘ کا مرکب ہے۔ اس میں  ’’اِلٰی‘‘ تو یہاں سابقہ فعل (توْبُوْا) کا صلہ ہے ’’تو بوا الی. . . . = تم توبہ کرو/ باز آجاؤ/ متوجہ ہو. . . .کی طرف/ کی جانب/ کے آگے‘‘۔ آخری ’’کُمْ ‘‘ ضمیر مجرور (یہاں) بمعنی ’’تمہارا/ اپنا‘‘ ہے بعض نے یہاں احتراماً ’’الی. . . . . ‘‘ کا ترجمہ  ’’. . . . کی جناب میں‘‘ سے کیا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں