اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ
  • ’’اتخَذْتم‘‘ (زیر مطالعہ لفظ) علی قول الاکثر اس مادہ (اخذ) سے باب افتعال کا فعل ماضی صیغہ جمع مذکرحاضر ہے۔ اور اس باب (افتعال) سے اس کے فعل اتَّخَذَ. . . .یَتَّخِذْ اِتْخِاذًا (اصلی شکل اوپر بیان ہوئی ہے) کے معنی ہیں:’’ . . . . .کو. . . . . بنا لینا‘‘ اردو میں کبھی اس کا ترجمہ ’’پکڑنا‘‘ بھی کر لیاجاتا ہے مگر اس میں مفہوم ’’بنالینا ‘‘کا ہی ہوتا ہے۔ عموماً اس فعل کے دو مفعول آتے ہیں۔ جن کے مطابق حسب موقع اس فعل کا ترجمہ ’’حاصل کرنا، تیار کرنا ، اختیار کرنا‘‘ کر لیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ اس کا مفعول ثانی محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے (جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے) جیسے اس زیر مطالعہ آیت میں ہے۔
  • قرآن کریم میں اس فعل (اتخذ یتخذ) کے مختلف صیغے ۱۲۰ سے زائد مقامات پر آئے ہیں۔ اور اس کے مشتقات اور مصادر بھی پچاس کے قریب جگہوں پر آئے ہیں۔

        زیر مطالعہ صیغہ (اتخذتم) کے مندرجہ بالا معنی کو سامنے رکھتے ہوئے بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’تم نے پکڑا، بنا لیا، تجویز کرلیا، اختیار کیا، مقرر کرلیا‘‘ سے کیا ہے۔ جسے بعض نے محاورۃً ’’تم لے بیٹھے‘‘ سے تعبیر کیاہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’’ تم نے پوجا شروع کردی‘‘  کیاہے جو تفسیری ترجمہ ہے اور بظاہر الفاظ سے بالکل ہٹ کر ہے۔ اگرچہ معنیٔ مراد  یہاں یہی ہے۔

۱:۳۳:۲ (۶)  [اَلْعِجْلَ] کا مادہ ’’ع ج ل‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فِعْلٌ‘‘ ہے (عبارت میں یہ لفظ منصوب آیا ہے جس پر ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی)۔ اس مادہ سے فعل مجرد  عجِل یعجَل عَجَلًا عَجَلَۃً باب سمع سے) لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بنیادی معنی ’’جلدی کرنا،  جلدی میں ہونا‘‘  ہیں۔ بطور متعدی استعمال ہوتو اس کے معنی ہوتے ہیں’’. . . . . .سے آگے نکل جانا ، پہل کر جانا‘‘۔  اس صورت میں اس کا مفعول بنفسہ آتا ہے مثلاً کہتے ہیں’’ عجِل فلانًا (اَوِالامر‘‘ (اس نے فلاں سے (یا) اس معاملے میں پہل کردی) اور اسی سے ہے  اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْ (الاعراف:۱۵۰ )  (یعنی کیا تم نے اپنے رب کے حکم سے پہلے ہی جلد بازی کرڈالی)   ــ بطور فعل لازم یہ مختلف صلات کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے مثلاً (۱) عجِل ب. . . . . . کو لے دوڑنا یعنی حاصل کرنے میں جلدی کرنا۔ اس استعمال کی مثال (طٰہٰ: ۱۱۴۔ اور القیامۃ:۱۶) میں ہے (۲)   عجِل اِلٰی. . . . . .کے معنی ہیں: . . . . . کی طرف جلدی سے جانا، . . . . . کی طرف جانے میں جلدی کرنا‘‘ اس کی مثال (طٰہٰ:۸۴) میں ہے اور (۳)عجِل علی. . . . . کا مطلب ہے= . . . ..کے بارے میں جلدی کرنا یعنی ان کے بارے میں جلدی فیصلہ چاہنا‘‘۔قرآن کریم میں یہ استعمال مریم:۸۴) میں موجود ہے۔ قرآن کریم اس فعل مجرد کے مختلف صیغے پانچ جگہ استعمال ہوئے ہیں۔ مزید فیہ کے باب تفعیل سے صیغہ ہائے فعل پانچ جگہ بابِ اِفعال اور تفعل سے صرف ایک ایک صیغہ اور باب استفعال سے کچھ صیغے ۱۹ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مصادر و مشتقات اور بعض جامد اسماء کل ۱۵ مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں