[ھُدًی] کا مادہ ’’ھ د ی‘‘ اور وزن اصلی ’’فُعَلٌ‘‘ہے۔ اس لفظ کی بناوٹ (لغوی ساخت یا تعلیل) پر البقرہ:۲ یعنی ۱:۱:۲(۶)میں اور اس مادہ سے فعل (ھدَی یھدِی = رہنمائی کرنا)کے باب معنی اور استعمال پر الفاتحہ:۶یعنی ۱:۵:۱(۱) میں بات ہوچکی ہے۔ اس کا ترجمہ ’’ہدایت، راہنمائی اور راہ کی خبر‘‘ کی صورت میں کیا جاتا ہے سب کا ایک ہی مفہوم ہے۔
[فَمَنْ] کی ’’فاء(ف)‘‘ عاطفہ (بمعنی پس/ پھر/ توپھر)ہے اور ’’مَن‘‘ (وہ جو)موصولہ شرطیہ ہے اور اسی شرط والے مفہوم کی بناء پر ’’من‘‘ میں ایک عموم کا مفہوم پیدا ہوتا ہے جس کو اردو میں ’’جو کوئی بھی، جس کسی نے بھی‘‘سے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ جسے بعض مترجمین نے ’’جوکوئی، جو شخص، جنہوں نے‘‘ وغیرہ سے ترجمہ کیا ہے مگر ان میں سے بعض ترجموں میں عموم والی بات نہیں ہے۔
۱:۲۷:۲(۳) [تَبِعَ] کا مادہ ’’ت ب ع‘‘ اور وزن ’’فَعِلَ‘‘ہے اس مادہ سے فعل مجرد ’’تبِع …یَتْبَعُ تَبَعًا‘‘(باب سمع سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’…کے پیچھے پیچھے چلتے آنا‘‘، ’’…کے پیچھے پیچھے آنا‘‘۔ اردو میں اس کے لیے فارسی لفظ ’’پیروی‘‘(جس کے معنی ’’پاؤں کے پیچھے جانا‘‘ہیں) استعمال کرتے ہوئے ترجمہ ’’…کی پیروی کرنا بھی کرلیتے ہیں۔ پھر اس سے بامحاورہ ترجمہ ’’…کے مطابق عمل کرنا‘‘ نکلتا ہے۔ بعض مترجمین نے لفظ سے قریب رہتے ہوئے اس (تبع) کا ترجمہ ’’پیرو ہوا، پر چلا‘‘ سے کیا ہے۔ جب کہ بیشتر نے ’’مَنْ‘‘ (مندرجہ بالا) شرطیہ کی وجہ سے فعل ماضی کا ترجمہ حال یا مستقبل سے کیا ہے یعنی ’’پیروی کریگا‘‘ سے کیا ہے اور بعض حضرات نے اس ’’مَنْ‘‘ میں جمع کے معنی بھی موجود ہونے کی بناء پر بصیغۂِ جمع ترجمہ کیا ہے یعنی ’’(جو لوگ)پیروی کریں گے، …پر چلیں گے‘‘کی صورت میں۔
- یہ فعل (تبع) متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہٖ (بغیر صلہ کے) فعل کے ساتھ ہی مذکور ہوتا ہے (جیسے یہاں ساتھ ’’ھدٰیَ‘‘ہے)۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے مختلف صیغے کل (۹) جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے بعض ابواب (افتعال اور افعال) سے اَفعال اور اسماء مشتقہ وغیرہ کے مختلف صیغے بکثرت (۱۶۰ سے زائد جگہ)وارد ہوئے ہیں جن پر حسبِِ موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
[ھُدَایَ] یہ ’’ھُدًی‘‘ (رہنمائی و ہدایت) + ’’یَ‘‘ (ضمیر متکلم مجرور بمعنی ’’میری‘‘)کا مرکب ہے۔ یہ بات پہلے بیان ہوچکی ہے کہ لفظ ’’ ھُدًی‘‘ جب معرف باللام یا مضاف ہو تو وہ ’’الھدٰی‘‘ یا ’’ھُدٰی‘‘ہوجاتا ہے۔ جس کی آخری ’’یاء‘‘ دراصل الف مقصورہ کا کام دیتی ہے یعنی اسے پڑھا ’’الھُدَا‘‘ اور ’’ھُدَا‘‘ ہی جاتا ہے۔(دیکھئے ۱:۱:۲(۶)میں ـ اسی طرح یائے متکلم مجرور بالاضافہ کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر اس کے مضاف کا آخری حرف الف (ا)ہو ـ چاہے وہ تثنیہ مرفوع مضاف ہوکر آرہا ہو۔ جس کا نون اعرابی گر جائے گا ــ یا اصل لفظ کے آخر پر ’’الف‘‘ آرہا ہو (جو ہمیشہ کسی ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘سے بدل کر بنا ہوتا ہے) تو یائے متکلم ساکن (یْ) کی بجائے مفتوح (یَ) ہوجاتی ہے جیسے ’’اُختایَ‘‘ (میری دو بہنیں) یا ’’عَصَایَ‘‘ (میری لاٹھی)میں ہے۔
یہاں زیرِ مطالعہ لفظ ’’ھدایَ‘‘ بھی اسی طرح بنا ہے۔ یعنی ’’ھُدًی‘‘مضاف ہونے کے باعث خفیف ہوکر ’’ھدا‘‘بنا اور ساتھ یائے متکلم مجرور (بوجہ اضافت) لگی تو ’’یَ‘‘ہوگئی ـــ ’’ھُدای‘‘کا ترجمہ اکثر نے ’’میری ہدایت‘‘ ہی کیا ہے۔ ایک آدھ نے اس کا ترجمہ ’’میرا بتایا‘‘ یا ’’میرے بتائے پر‘‘ بھی کیا ہے جو اردو محاورے کے لحاظ سے شاید درست ہی ہو مگر بظاہر لفظ سے ہٹ کر ہے۔