- اس مادہ (ر ب ع) سے فعل مجرد ’’ربعَ یرْبَع‘‘ (باب فتح سے) مختلف مصادر کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے مثلاً ’’قیام پذیر ہونا، رسی کو چار بل دینا، انتظار کرنا‘‘ وغیرہ اور مزید فیہ کے ابواب تفعیل، تفعل، افعال اورافتعال وغیرہ سے بھی اس سے اَفعال مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ (ربع) سے کسی قسم کے فعل (مجرد یا مزید فیہ) کا کوئی صیغہ کہیں نہیں آیا۔ بلکہ صرف ’’عدد‘‘ والے معنی کے مختلف کلمات ۲۲ جگہ وارد ہوئے ہیں یعنی ’’ربعٌ (۴/۱)، ’’رُباعَ‘‘ (چار چار)، ’’ اَرْبَع‘‘ (چار) ’’اربعۃٌ‘‘ (چار برائے مذکر) ’’اَرْبَعین‘‘ (چالیس) اور ’’رابع‘‘ (چوتھا)۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
۱:۳۳:۲ (۴) [لَیْلَۃً] کا مادہ ’’ل ی ل‘‘ اور وزن ’’فَعْلَۃٌ‘‘ ہے (لفظ یہاں منصوب آیا ہے جس کی وجہ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) اس مادہ سے فعل مجرد استعمال ہی نہیں ہوتا۔ مزید فیہ کے ابواب مفاعلہ اور افعال سے یہ بعض معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جو کسی ڈکشنری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کے فعل کا کوئی صیغہ کہیں بھی نہیں آیا۔
- اس مادہ سے اسم جامد ’’لَیْلٌ‘‘ کے معنی ہیں: ’’سورج چھپنے کے بعد سے(پھر) سورج نکلنے تک کا وقت ‘‘جسے اردو میں ’’رات‘‘ کہتے ہیں۔ یہ اسم جنس ہے اور یہ لفظ ’’دن (نھارٌ) کے مقابلے پر استعمال ہوتا ہے۔ اگر کسی رات یا چند راتوں کا ذکر کرنا ہو یعنی ’’لَیْلٌ‘‘ کی جنس سے بعض‘‘ تو اس کے ساتھ تائے وحدت لگا کر لفظ ’’لَیْلَۃً‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ اُردو میں اس کا ترجمہ بھی ’’رات‘‘ ہی ہوگا۔ اس لیے کہ اردو میں کسی جنس کے لیے اور اس کے فرد واحد کے لیے الگ الگ لفظ (اسم) نہیں ہیں۔
- زیر مطالعہ عبارت [۱:۳۳:۲ (۳، ۴)]میں ’’اربعین لیلۃً‘‘ عدد معدود (مرکب عددی) ہے اور اس کا ترجمہ ’’چالیس راتیں‘‘ ہوگا۔ اس پر مزید بحث آگے ’’الاعراب‘‘ میں آرہی ہے۔
۱:۳۳:۲ (۵) [ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ] ’’ثُمَّ‘‘کا ترجمہ ’’پھر‘‘، ’’اس کے بعد‘‘ ہے۔ اس کے معنی اور استعمال کی مزید وضاحت کے لیے دیکھئے [۱:۲۰:۲ (۴)]’’اِتَّخَذْتُمْ‘‘ کا مادہ ’’اخ ذ‘‘ اور وزن ’’اِفْتَعَلْتُمْ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’اِئْتَخَذْتُمْ‘‘ تھی۔ مگر اس مادہ سے بابِ افتعال کے فعل کو عرب لوگ ہمیشہ اس کے ہمزۂ ساکنہ (فاء کلمہ) کو ’’ت‘‘ میں بدل کر دوسری ’’ت‘‘ (تائے افتعال) میں مدغم کرکے بولتے ہیں۔ اور اسی چیز کو کتب صرف میں ’’اخذ‘‘ کے باب افتعال کا قاعدۂ ادغام ‘‘کہہ کر بیان کیا جاتا ہے۔ یعنی ریاضی کی زبان میں ’’اِئْتَخَذَ= اِیْتَخَذَ= اِتْتَخَذَ= اِتَّخذ ‘‘۔
- چونکہ یہ مہموز سے باب افتعال میں اس قسم کی تبدیلی کی ایک شاذ (بلکہ شاید اکلوتی) مثال ہے (خیال رہے مثال واوی میں بابِ افتعال میں ’’و‘‘ (فاء کلمہ) کا ’’ت‘‘ بن کر تائے افتعال میں ادغام ایک عام قاعدہ (کلیہ) ہے مگر مھموز میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ عموماً اس صورت میں ’’ہمزہ‘‘ ، ’’ی‘‘ میں ہی بدلتا ہے)۔ اسی لیے بعض اہل لغت نے فعل ’’اتخذ‘‘ کا مادہ ہی (ت خ ذ) بتایا ہے۔ اس پر مزید بحث الکہف:۷۸ میں ’’لتَّخَذْتَ‘‘ کے ضمن میں ا ٓئے گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ تاہم اہل لغت کی اکثریت نے اس کا مادہ’’اخذ‘‘ ہی قرار دیا ہے اور مہموز الفا کے باب افتعال میں سے اس طرح ادغام والے افعال کی کچھ اور مثالیں بھی دی ہیں [1] مثلاً ’’اُزر‘‘ سے اتَّزرَ (ازار باندھنا یا پہننا) اور ’’امن سے اتَّمَنَ‘‘ (امین بنانا)۔ اگرچہ ان دونوں افعال کا زیادہ استعمال ’’اِئتَزَر‘‘ اور ’’اِئْتَمَنَ‘‘ کی صورت میں ہوتا ہے)جو ماقبل سے موصول نہ ہونے کی صورت میں ’’اِیْتزر‘‘ اور ’’اِیْتَمَن‘‘ ہو جاتے ہیں) اس مادہ (اخذ) سے فعل مجرد کے باب معنی اور استعمال پر البقرہ:۴۸[۱:۳۱:۲ (۵) ] میں بات ہوچکی ہے۔
__________________________________
[1] ۔ مثلاً راغب نے ’’اخذ‘‘ کے علاوہ ’’تخذ‘‘ ایک الگ مادہ کے طور پر لیا ہے اور القاموس المحیط (فیروز آبادی) میں ’’اخذ‘‘ کے علاوہ ’’تخذ‘‘ مادہ بھی لیا گیا ہے اور وہاں (مادہ تخذ کے تحت) کتاب کے متن اور حاشیے میں ’’اتحاذ‘‘ کے ’’اخذ‘‘ یا ’’تخذ‘‘ سے مشتق ہونے یا نہ ہونے کے دلائل مذکور ہیں۔