اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

۱:۲۱:۲(۳)     [اِنِّی جَاعِلٌ] اس میں ’’اِنِّیْ‘‘  تو اِنَّی کا مرکب ہے جس کاترجمہ ہے بے شک/یقینًا میں….یہ مرکب قرآن کریم میں نونِ وقایہ کے ساتھ ’’اِنّنِیْ‘‘بھی کئی جگہ استعمال ہوا۔معنی ایک ہی ہیں۔ ’’[جاعل]‘‘ کا مادہ ’’ج،ع،ل"اور وزن’’ فاعِلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد جَعَل یجْعَل کے معنی اور استعمال کے بارے میں البقرہ:۱۹ یعنی ۱:۱۴:۲(۶) میں بات ہو چکی ہے۔ ’’جَاعِلٌ‘‘اس فعل سے اسم الفاعل ہے اور اس کا ترجمہ ہے :’’پیدا کرنے والا‘‘بنانے والا،مقرر کرنے والا"۔اور اکثر مترجمین نے یہی ترجمہ (بنانے والا)کیا ہے۔بعض حضرات نے اس (جاعل)کا ترجمہ ’’مجھ کو بنانا ہے‘ میں ضرور بناوں گا‘ میں بنانا چاہتا ہوں‘‘کی صورت میں کیا ہے‘یہ مفہوم اور محاورے کے لحاظ سے درست سہی تاہم اس میں اسم کا ترجمہ صیغۂ فعل (مضارع)سے کر دیا گیا ہے اور لفظ سے ہٹ کر ہے۔ لفظ ’’جاعِلٌ‘‘ مختلف صورتوں (واحد، جمع،مفرد،مرکب)میں قرآن کریم کے اندر ۶جگہ دارد ہوا ہے۔

۱:۲۱:۲(۴)     [فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً] ’’فی الارض‘‘تو ’’فی‘‘(میں، کے اندر)اور ’’الارض‘‘(زمین) کا مرکب ہے یعنی ’’زمین میں ’’اور محاورۃً  زمین پر‘‘بھی کہہ سکتے ہیں۔ ’’خَلِیْفَۃ‘‘ کا مادہ ’’خ ل ف ‘‘اور وزن ’’فَعِیْلَۃٌ‘‘ہے (یہاں لفظ ’’خلیفۃ‘‘ منصوب آیا ہے  نصب کی وجہ پر ’’الاعراب‘‘ میں بات ہو گئی) 

        اس ثلاثی مادہ سے  فعل مجرد مختلف ابواب (مثلا نصر،ضَرب،سمِع اور کرُم)سے مختلف معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایک ہی باب سے ــــ مصدر کے فرق کے ساتھــــ مختلف معنی کے لئے آتا ہے ۔یہ فعل عموماًً لازم ،متعدی دونوں طرف استعمال ہوتا ہے اوربعض صِلات (مثلاًً’’لِ‘‘،’’علی‘‘اور ’’عَنْ‘‘)کے ساتھ خاص معنی بھی دیتا ہے۔مثلاًً:۔

خلَف…. یخلُف خَلْفاً(باب نصر سے)کے معنی ہیں:''۔ کا نائب / جانشین بننا،کے پیچھے آنا ۔‘‘کہتے ہیں ’’خَلْفَہٗ :وہ اس کے پیچھے آیا ‘‘ــــ اور خلَف یخلُف خُلُوْفاً(نصر سے)کے معنی ہیں:’’بگڑ جانا،بدبودار (خراب بُو والا) ہونا ،(یعنی اس صورت میں یہ فعل لازم ہے)خلَف(نصراورضرب سے)لَہٗ"کے معنی ہیں…کے پیچھے سے وار کرنا"اور خلَف(نصراورضرب سے) "عَنْ ‘‘کے معنی ہیں:’’سے کٹ جانا ،پیچھے رہ جانا’’ ــــ خلَفہ(ضرب سے)کے معنی :’’کو پیچھے سے آدبوچنا‘‘ــ اور خلَف (ن) کے ایک معنی :’’کسی کے مرنے کے بعد اس کی بیوہ سے شادی کرنابھی ہوتے ہوتے ہیں مثلاًً کہتے ہیں: خلَف فلانٌ علی زوجۃِ  فلانٍ (اس نے  اس کی (بیو ہ) بیوی سے شادی کر لی)۔(آپ چاہیں تو کسی اچھی ڈکشنری میں اس فعل کے متنوع استعمال کو دیکھ سکتے ہیں)۔

  • قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے صرف باب نصر سے ہی فعل کے کل پانچ صیغے مختلف جگہ دارد ہوئےہیں۔ اور وہ بھی صرف ’’….کے پیچھے آنا….. کا جانشین بننا ‘‘کے معنی میں ہی آئے ہیں ۔ثلاثی مجرد کے کسی اَوْر باب سے یا کسی اور معنی کے لیے یہ فعل قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا ـ البتہ مزید فیہ کے بعض ابواب (تفعیل،تفعّل،اِفعال،افتعال اور استفعال)سے اَفعال کے متعدد صیغے (۵۸جگہ)آئے ہیں۔ اور مختلف مصادر اور مشتقاّت ساٹھ سے زائدمقامات پر وارد ہوے ہیں جن سے ایک یہ زیرمطالعہ لفظ’’خلیفۃ‘‘ بھی ہے۔
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں