[مَا فِی الْاَرْضِ]یہ ’’مَا‘‘ (موصولہ بمعنی ’’جو کچھ کہ،جو کچھ بھی کہ اور سب کچھ جو‘‘ہے) +’’فِیْ‘‘ (حرف الجر بمعنی ’’میں‘‘) +الارض (بمعنی ’’زمین‘‘) کا مرکب ہے۔ [ضرورت ہو تو ’’ما‘‘ کے معانی کے لیے۱:۲:۲(۵)اور۱:۱۹:۲(۲) ۔ ’’فِیْ‘‘ کے لیے ۱:۱:۲(۵) اور ’’الارض‘‘پر بحث کے لیے۱:۹:۲(۴) پر نظر ڈال لیجئ]۔
۱:۲۰:۲(۷) [جَمِیْعًا] کا مادہ ’’ج م ع‘‘ اور وزن ’’فَعِیْلًا‘‘ (بصورت منصوب ہے ( جس کے یہاں منصوب ہونے کی وجہ آگے ’’الاعراب‘‘میں بیان ہوگی۔)
اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’جمَع …یجمَع جمعًا‘‘(باب فتح سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں : …کواکٹھا کرنا (یعنی الگ الگ افراد یا اشیاء یا صفات کو یکجا کرنا) بلکہ لفظ ’’جمع‘‘ اردو میں مستعمل ہے اس لیے اس کا ترجمہ (معنی) ’’…کو جمع کرنا‘‘ بھی کرسکتے ہیں۔ پھر یہ فعل حِسی اور معنوی دونوں قسم کی چیزیں اکٹھی کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلا جَمَعَ مَالًا (اَلْھُمَزہ:۲) ’’اس نے مال اکٹھا کیا‘‘ اور فَـجَمَعَ كَيْدَه (طہ:۶۰) ’’اس نے اپنا مکر (ساری تدابیر کو) جمع کیا‘‘ یہ متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہ بغیر کسی صلہ کے، فعل کے ساتھ ہی) آتا ہے۔ البتہ بعض دفعہ مفعول محذوف (غیر مذکور)ہوتا ہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلاً وَجَمَعَ فَاَوْع (المعارج:۱۸) یعنی ’’مال اکٹھا کیا‘‘ اور اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ (آل عمران:۱۷۳‘‘ یعنی ’’فوج‘‘ اکٹھی کرلی ہے‘‘اس فعل کے فاعل کو ’’جامع‘‘ اور مفعول کو مجموع اور جمیع بھی کہتے ہیں۔
- زیر مطالعہ لفظ (جمیع) کا وزن فعیل ہے جو اسم فاعل اور اسم مفعول ــــ دونوں کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔ (جیسے رحیم، بمعنی راحم اور قتیل بمعنی مقتول ہے) اس طرح ’’جمیع‘‘ کے معنی حسب موقع ’’جامع‘‘ یا’’مجموع‘‘ ہوسکتے ہیں یعنی اشیاء یا صفات وغیرہ کو ’’اکٹھا کرنے والا‘‘ یا جس میں کچھ اشیاء یا صفات وغیرہ جمع کردی گئی ہوں مثلاً ’’قوم جمیع‘‘ (سب کے سب لوگ) اور ’’رجلٌ جمیع‘‘ (بھر پور جوان آدمی)
’’جمیع‘‘ بلحاظ معنی ’’متفرق‘‘ (الگ الگ)کی ضد ہے یعنی اس لفظ میں ’’سب کے سب، سارے، سب کچھ، پورے کا پورا، ایک ساتھ‘‘کا مفہوم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ ان ہی لفظوں میں سے کِسی ایک کے ساتھ کیا ہے۔ اور اسی مفہوم کے لحاظ سے یہ (جمیع) توکید (تاکید)کے لیے مقررہ چھ لفظوں میں ے ایک ہے اور ’’کُلٌّ‘‘کے ہم معنی ہے۔ بطورتاکید استعمال ہوتے وقت اس کے ساتھ موُکَّد کے مطابق ایک ضمیر بھی آتی ہے۔ جیسے ’’قرأتُ الکتابَ جمیعَہ یا کُلَّہ‘‘(میں نے ساری ساری کتاب پڑھی)۔
قرآن کریم میں یہ لفظ (جمیع) کل چار(۴) جگہ آیا ہے اور ’’جمیعًا‘‘ کی شکل میں ۴۹ جگہ وارد ہوا ہے۔
۱:۲۰:۲(۸) [ثُمَّ اسْتَوٰی] ’’ثُمَّ‘‘کے معنی و استعمال پر ابھی اوپر ۱:۲۰:۲(۴)میں بات ہوئی ہے۔ اس کا ترجمہ تو یہاں ’’پس یا پھر‘‘ ہی کیا گیا ہے۔ تاہم بلحاظ مفہوم ممکن ہے کہ یہ ترتیب زمانی کے لیے نہ ہو بلکہ صرف تاکید یا استیناف کا ہو۔ فعل ’’استوٰی‘‘ کا مادہ ’’س وو‘‘ اور بقول بعض ’’س و ی‘‘[1] اور وزنِ اصلی ’’استفعل‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’استَوَیَ‘‘تھی جس میں آخری متحرک ’’یاء‘‘ (ی) ماقبل کے مفتوح ہونے کی بناء پر ’’الف‘‘(مقصورہ) میں بدل جاتی ہے یعنی لکھی ’’ی‘‘ ہی جاتی ہے۔
___________________________________
[1] القاموس المحیط اور اقرب الموارد میں اسے واوی اللام قرار دیا ہے جب کہ المنجد اور المعجم الوسیط میں اس کو یایٔ اللام سمجھا گیا ہے۔ مد القاموس (LANE) میں عنوان کے طور پر دونوں مادے مذکور ہیں۔ ویسے بھی عملاً واوی بھی یائی ہی استعمال ہوتی ہے۔