- قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے افعال کے مختلف صیغے ۳۹ جگہ آئے ہیں، جن میں سے ۹ جگہ تو صیغہ فعل ماضی کا ہے جسے مندرجہ بالا تین ابواب میں سے کِسی سے متعلق قرار دیا جاسکتا ہے۔ ۲۱ جگہ ایسے صیغے آئے ہیں جو باب نصر سے ہی ہوسکتے ہیں اور باقی ۹ جگہوں پر ایسے صیغے بھی آئے ہیں جن کو باب’’سَمِعَ یا ضرب‘‘ (دونوں) سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مادہ (موت)سے مزید فیہ کے بابِ افعال کے مختلف صیغے بھی ۲۱ جگہ وارد ہوئے ہیں۔
- کلمہ ’’اموات‘‘ جو قرآن کریم میں کل ۶ جگہ استعمال ہوا ہے، کا واحد (میّت یا مَیْتٌ) اسم الفاعل (مائت: مرجانے والا) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس کا ترجمہ ’’مردہ، بے جان، بے روح‘‘کیا جاسکتا ہے۔ پھر یہ لفظ حقیقی اور مجازی دونوں معنی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی عبارت میں ان کے معنی ِٔ مراد کا تعیّن اصولِ تفسیر کی مدد سے یا مستند تفسیر کے حوالے سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ ویسے اس بارے میں ’’اصول‘‘یہ ہے کہ کسی بھی عبارت میں بنیادی طور پر کسی لفظ کے "حقیقی" معنی ہی ہوں گے اِلاَّ یہ کہ کوئی ایسا قرینہ پایا جائے جو مجاز یا استعارہ والے معنی مراد لینا ضروری قرار دے۔ اور اس ’’ قرینہ‘‘کے تعیّن کے لیے کسی کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔
۱:۲۰:۲(۳) [فَاَحْیَاکُمْ]اس کی ابتدائی ’’فاء‘‘ (فَ) تو عاطفہ بمعنی ’’پس ‘‘ یا ’’پھر‘‘ہے۔ آخری ضمیر منصوب (کُم)کے معنی یہاں ’’تم کو یا تمہیں‘‘ہیں۔ اور اس ’’فَ‘‘ اور ’’کُمْ‘‘کے درمیان فعل ’’اَحْیَا‘‘ہے۔ جس کا مادہ ’’ح ی ی‘‘اور وزن اصلی ’’اَفْعَلَ‘‘ ہے۔ اس کی اصل شکل ’’اَحْیَیَ‘‘ تھی جس میں آخری متحرک ’’یاء‘‘ ماقبل مفتوح ہونے کے باعث ’’الف‘‘ میں بدل دی جاتی ہے۔ اصولی طور پر اس لفظ کی املاء ’’اَحْیٰی‘‘(الف مقصورہ کے ساتھ)ہونی چاہئے۔ مگر یہ لفظ خلافِ قیاس ’’احیا‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ اس مادہ (ح ی ی)سے فعل مجرد کے استعمال اور معنی پر البقرہ:۲۶ یعنی ۱:۱۹:۲(۱)میں بات ہوچکی ہے۔
- ’’اَحْیَا‘‘اس مادہ (حیی)سے بابِ افعال کا فعل ماضی صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’اَحْیَا …یُحْیِیْ (دراصل اَحْیَیَ یُحْیِیُ)اِحْیاءً ‘‘ کے بنیادی معنی ہیں: ’’…کو جلانا، …کو جاندار کرنا، …میں جان ڈالنا، …کو جان بخشنا، …کو زندگی دینا یا زندہ کرنا‘‘ یعنی یہ فعل ہمیشہ متعدی اور مفعول بنفسہٖ کے ساتھ آتا ہے (بغیر صلہ کے)ــــ اور اس کے فاعل اور مفعول کے طور پر مختلف اشیاء کے ذکر سے اس میں بھی مختلف محاوراتی معنی پیدا ہوتے ہیں (مثلاً احیا اللّیلَ=اس نے رات بھر عبادت کی) اس طرح ’’فَاَحْیَاکم‘‘کا ترجمہ ’’پھر اس نے تم کو جِلایا، زندگی دی، جان بخشی‘‘ وغیرہ (مندرجہ بالا مصدری معنی کے ساتھ)کیا جاسکتا ہے۔
یہ کلمہ (اَحْیَا) اور اس کے باب (افعال) سے مختلف صیغے قرآن کریم میں پچاس جگہ وارد ہوئے ہیں۔
۱:۲۰:۲(۴) [ثُمّ] کا مادہ ’’ث م م‘‘ اور وزن ’’فُعْلَ‘‘ہے۔ قرآن کریم میں اس مادہ سے کوئی فعل نہیں آیا۔ بلکہ صرف ایک دو حرف ہی آئے ہیں جن میں سے ایک یہ ’’ثم‘‘ہے جو عرف عطف ہے اور بلحاظ (۱)معنی کسی کام یا حکم میں ’’ترتیب مع تراخی‘‘ (یعنی نمبر وار ایک دوسرے کا اور کچھ وقفہ سے واقع ہونے) کا مفہوم دیتا ہے۔ اردو میں اس کاترجمہ حسب موقع ’’پس، پھر، سو، اس کے بعد، دوبارہ، مزید برآں‘‘ کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔