اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت  ۱۰۸

۲ : ۶۵  اَمۡ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَسۡـَٔلُوۡا رَسُوۡلَکُمۡ کَمَا سُئِلَ مُوۡسٰی مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَبَدَّلِ الۡکُفۡرَ بِالۡاِیۡمَانِ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ ﴿۱۰۸﴾

۲ : ۶۵ : ۱      اللغۃ

اس آیت میں بھی بالکل نیا اور بلحاظ مادہ پہلی دفعہ آنے والا لفظ تو صرف ’’السبیل‘‘ ہے۔باقی تمام کلمات براہ راست (اپنی اسی موجودہ شکل میں)یا بالواسطہ (یعنی اصل مادہ کے لحاظ سے)پہلے گزر چکے ہیں۔ اس لئے ہم عبارت کو چھوٹے چھوٹے جملوں (یاجملوں سے ملتے جلتے حصوں) میں تقسیم کرکے ہر ایک جزء کے کلمات کی وضاحت کریں گے یا حسب ضرورت گزشتہ حوالہ دیتے جائیں گے۔

۲ : ۶۵ : ۱ (۱)      [اَمْ تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَسْـــَٔـلُوْا رَسُوْلَكُمْ . . . .]

(۱)  ’’اَمْ‘‘ (آیا / کیا ؟ / بلکہ / شاید) اس کی دو اقسام یعنی ’’ اَمْ متّصلہ‘‘ اور ’’اَمْ منقطعہ‘‘پر بات البقرہ : ۶ [ ۲ : ۵ : ۱ (۴)] میں ہوچکی ہے۔

(۲)  ’’ تُرِيْدُوْنَ ‘‘ (تم ارادہ کرتے ہو)اس کا مادہ ’’ر و د‘‘ اور وزن ’’تُفْعِلُونَ‘‘ہے۔ یہ دراصل ’’ تُرْوِدُوْنَ ‘‘ تھا۔ پھر ’’ ـــــُـــــ  ــــْــــ  وِ  ــــُــــ ــــِــــ یْ ‘‘کے مطابق ’’ وِ‘‘ کی حرکت (ـــــِــــ)ماقبل ساکن (رْ)کو منتقل ہوئی اور پھر خود ’’وْ‘‘ بوجہ ماقبل مکسور کے ’’یْ ‘‘ میں بدل گئی یعنی تُرْوِدُوْنَ  تُرِوْدُوْنَ =  تُرِیْدُوْنَ۔گویا یہ اس مادہ سے بابِ اِفعال کا فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔

  • اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد (جو قرآن کریم میں نہیں آیا)اور اس سے بابِ افعال کے فعل ’’اَرادَ یُرِیدُ ‘‘کی اصل صورت، اس کی تعلیل اور معنی (قصد کرنا، چاہنا، ارادہ کرنا)پر البقرہ: ۲۶ [ ۲ : ۱۹ : ۱ (۸)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ اس طرح اس صیغہ (تُرِیدُون)کا لفظی ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر لکھا گیا ہے۔ تاہم اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’کیا تم یہ چاہتے ہو ‘‘ سے کیا ہے۔ بعض نے ضمیر مخاطب کے بغیر ترجمہ بصورت ’’کیا یہ چاہتے ہو ‘‘ کیا ہے جس میں اردو محاورے کے مطابق ’’تم‘‘کا مفہوم موجود ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’’کیا تم مسلمان بھی چاہتے ہو ‘‘ کیا ہے جو تفسیری ترجمہ ہے۔ اس میں ’’بھی ‘‘ کا استعمال آگے آنے والی عبارت ’’کَمَا سُئِلَ. . . . ‘‘کی وجہ سے کیا گیا ہے۔

(۳)   ’’اَنْ‘‘(یہ کہ / کہ)کے استعمال اور معانی پر البقرہ : ۲۶ [۲ : ۱۹ : ۱ (۲)] میں پہلی دفعہ مفصل بات ہوئی تھی  ۔ اس کے بعد اب تک یہ لفظ نو دفعہ گزر چکا ہے۔ یہاں یہ مصدریہ ناصبہ ہے۔ اس کی وجہ سے ترجمے میں (یہ کہ)آتا ہے جسے اردو محاورے کے مطابق جملے میں جدا کر کے استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی ’’کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ‘‘ کی صورت میں۔

(۴)  ’’ تَسْـــَٔـلُوْا ‘‘ (’’کہ‘‘ : تم پوچھو، سوال کرو) اس کا مادہ’’س ء ل ‘‘اور وزن ’’تَفْعَلُوا‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد’’ سَأَلَ یَسْأَلُ‘‘ (= مانگنا، پوچھنا، سوال کرنا)کے باب اور استعمالات کے متعلق البقرہ : ۶۱ [۲ : ۳۹ : ۱ (۱۳)] میں وضاحت کی جاچکی ہے۔ ’’تسألوا ‘‘اس فعل سے صیغہ مضارع منصوب (جمع حاضر)ہے، علامتِ نصب آخری نون کا گرنا ہے (دراصل تَسألونَ)تھا واو الجمع کے بعد الف لکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح ’’اَنْ تسألوا‘‘کا مجموعی ترجمہ کرنا پڑتا ہے۔ یعنی ’’ . . . .کہ سوال کرو‘‘اس کے مصدری ترجمہ پر ’’الاعراب‘‘ میں مزید بات ہوگی۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں