(۲)البتہ زیادہ تر دوسرا مفعول محذوف ہوتا ہے۔ (جو عموماً عذابِ آخرت یا سزائے اعمال وغیرہ ہوتا ہے اور خود بخود سمجھا جاتا ہے) اس (دوسرا مفعول محذوف ہونے) کی بھی کم از کم پچیس (۲۵) مثالیں قرآن میں موجود ہیں
(۳)اور بعض دفعہ پہلا مفعول محذوف کر دیا جاتا ہے۔ (یعنی کفار یا مخاطب وغیرہ) مگر دوسرا مفعول (جس سے ڈرانا مقصود ہوتا ہے)مذکور ہوتا ہے قرآن کریم میں اس کی کم از کم تین مثالیں موجو دہیں (الکھف:۲، غافر (المؤمن) :۱۵، اور الشورٰی:۷)
(۴)اور بعض جگہ دونوں ہی مفعول محذوف کر دیئے گئے ہیں مگر وہ سیاقِ کلام سے سمجھے جاسکتے ہیں مثلاً قُمْ فَاَنْذِرْ‘‘(المدثر:۲) ’’یعنی کھڑا ہوا ور ڈرا‘‘ یہاں کس کو ڈرا؟ کس سے ڈرا؟ مذکور نہیں ہے۔ اس کی ایک اور مثال (الاعراف:۲) میں ہے۔ یہ تمام امثلہ اور اس فعل (انذاز) سے کچھ مزید افعال اور مشتقات قرآنِ کریم میں بکثرت وارد ہوئے ہیں۔ ان سب کا بیان اپنی اپنی جگہ آئے گا۔ یہاں (آیت زیر مطالعہ میں)’’ ءَاَنْذَرْتَھُمْ‘‘ میں ضمیر مفعول ’’ھم‘‘ کے بعد دوسرا مفعول (یعنی کس سے ڈرا؟) محذوف (غیر مذکور) ہے۔
۱:۵:۲(۴) [اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ]جو دراصل اَمْ+لَمْ تُنْذِرْ+ھُمْ ہے۔ اَمْ‘‘ تو یہاں ہمزۃ التسویہ کے ’’جواب‘‘ میں ہے ۔(ہمزۃ التسویہ پر ابھی اوپر ’’ئَ‘‘کے ضمن میں بات ہوئی ہے) اس کا اردو ترجمہ ’’چاہے‘‘، ’’خواہ‘‘ یا ’’یا‘‘ سے ہی ہوگا۔ یہ (اَمْ) عموماً ہمزۃ التسویہ کے بعد آتا ہے۔ اس لیے اسے ’’أم متصلہ‘‘ (ساتھ والا) اور ’’أم معادلہ‘‘ (برابری کے معنی دینے والا) بھی کہتے ہیں بعض دفعہ یہ (أم) ہمزۃ التسویہ کے بغیر مستقل جملہ کے شروع میں بھی آتا ہے۔ اس وقت اسے ’’أم منقطعہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس وقت اس کا اردو ترجمہ بطور استفہام ’’کیا‘‘ یا ’’آیا‘‘ کی بجائے بلکہ سے کرسکتے ہیں۔ اس کی مثالیں بھی آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔
لَمْ تُنْذِرْ‘‘کا مادہ ’’ن ذ ر‘‘ہے اور وزن ’’لَمْ تُفْعِلْ‘‘ہے۔ یعنی یہ باب افعال سے فعل مضارع معروف منفی بِلَمْ کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے۔ ’’اِنْذَار‘‘ (یعنی أنذَر یُنذِر) کے معنی پر ابھی اوپر ’’ءَاَنْذَرْتَ‘‘ کے ضمن میں بات ہوچکی ہے۔ اس صیغے (لم تنذر) کا لفظی ترجمہ تو ہوگا۔ ’’تو نے ڈرایا ہی نہیں‘‘ اور ’’ھم‘‘ ضمیر مفعول اول کے لیے ہے۔ اس طرح ’’ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ ‘‘ کا لفظی ترجمہ ہوا ’’چاہے؍خواہ؍یا تو نے ڈرایا ہی نہیں ان کو‘‘ یہاں دوسرا مفعول (یعنی کسی چیز سے نہ ڈرایا) محذوف یعنی غیر مذکور ہے، جو سیاقِ کلام سے سمجھا جاسکتا ہے۔ یعنی جو آیت کے شروع میں آنے والے ’’کفروا‘‘ کا مفعول ہے۔ وہی یہاں مراد لیا جاسکتاہےـــ
- عربی زبان میں اس قسم کے ’’تسویہ‘‘ (چاہے… چاہے…) کے بیان کے لیے عموماً دونوں جگہ فعل ماضی استعمال ہوتا ہے۔ لفظاً ہو یا معنا ً۔ جیسا کہ آپ یہاں دیکھ رہے ہیں کہ ءَاَنْذَرْتَ‘‘ بلحاظ لفظ بھی ماضی ہے جب کہ ’’لم تُنْذِرْ‘‘ بلحاظ معنی ماضی ہے۔ یوں اس حصہء آیت’’ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ‘‘ کا لفظی ترجمہ تو ہوگا: ’’خوا ہ ڈرایا تو نے ان کو / خوا ہ/ ڈرایا ہی نہیں تو نے ان کو ‘‘ ـ اردو محاورے میں ایسے موقع پر عموماً فعل مضارع استعمال ہوتا ہے۔ اس لئے اردو مترجمین نے اس (حصہ آیت) کا ترجمہ ’’تو ان کو ڈراوے یا نہ ڈراوے‘‘ پھر ’’ڈراوے‘‘ ذرا پرانی اردو ہے اس لیے بعد کے مترجمین نے ’’ڈرائے یا نہ ڈرائے‘‘ استعمال کیا ہے۔ بعض نے ضمیر فاعل واحد مخاطب کا ترجمہ ’’تو‘‘ کی بجائے ’’تم‘‘ اور بعض نے مزید احتراماً ’’آپ ‘‘ کیا ہے اور یوں ’’تم ڈراؤ یا نہ ڈراؤ‘‘ اور ’’آپ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، نصیحت کریں یا نہ کریں‘‘ سے ترجمہ کیا گیا ہے ’’اِنذار‘‘ کے ان معنوں پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے۔