اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

۱:۳۹:۲(۱۳)     [مَا سَأَلْتُمْ] ’’مَا‘‘ اسم موصول (بمعنی ’’وہ جوکہ، جو کچھ کہ‘‘) ہے اس (مَا)کے معنی و استعمال پر البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۵)]میں نیز البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲ (۲)]میں بات ہوچکی ہے۔

اور ’’سَأَلْتُمْ‘‘ کا مادہ ’’س ء ل‘‘ اور وزن ’’فعلتم‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’سَأَل. . .یَسْأَلُ سُؤَالًا‘‘ (فتح سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’. . . سے (کوئی چیز) مانگنا‘‘ اور چونکہ اس کا مصدر ’’سُؤَال‘‘ اردو میں بصورت ’’سوال‘‘ مستعمل ہے اس لیے اس کا ترجمہ ’’سوال کرنا‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ محاوراتی استعمال میں یہ فعل ’’دریافت کرنا، پوچھنا، جواب مانگنا، باز پرس کرنا اور طلب کرنا‘‘ کے معنی دیتا ہے۔ اور قرآن کریم میں یہ فعل ان (مذکورہ بالا) سب معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل (سأل یسأل) سے مختلف صیغے (ماضی، مضارع، امر، نہی، معروف، مجہول وغیرہ) ۱۰۶ جگہ آئے ہیں۔ مزید فیہ کے باب تفاعل سے کچھ صیغے آٹھ جگہ آئے ہیں اور مصادر و اسماء مشتقہ ۱۴ جگہ آئے ہیں۔

  • ’’سأل یسأل‘‘ ہمیشہ بطور فعل متعدی استعمال ہوتا ہے۔ جب یہ’’مانگنا اور طلب کرنا‘‘ کے معنی میں آئے تو اس کے دو مفعول ہوتے ہیں (۱) جس سے مانگا جائے (۲) اور جو چیز مانگی جائے اور دونوں بنفسہٖ(بغیر صلہ کے) منصوب ہوکر آتے ہیں جیسے ’’ مَنْ لَّا يَسْـَٔــلُكُمْ اَجْرًا ‘‘ (یٰسٓ:۲۱) یعنی ’’جو تم سے کچھ اجر نہیں مانگتا‘‘ یا ’’ لَا نَسْــَٔــلُكَ رِزْقًا ‘‘ (طہ:۱۳۲) یعنی ’’ہم تجھ سے کوئی روزی نہیں مانگتے‘‘۔ بعض دفعہ دوسرا مفعول محذوف بھی کردیا جاتا ہے جیسے ’’ لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ‘‘ (البقرہ:۲۷۳) میں یہ مذکور نہیں کہ وہ لوگوں سے کیا نہیں مانگتے؟ جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اور کبھی دوسرے مفعول پر ’’من‘‘ (بیان یا تبعیض کے لیے) لگتا ہے جیسے ’’ وَسْـــَٔـلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖ ‘‘ (النساء:۳۲) میں ’’فَضلَہٗ‘‘ کو ’’مِنْ فضلہ‘‘ کردیا گیا ہے۔
  • اور اگر ’’سأل‘‘ پوچھنا (یعنی جواب مانگنا) دریافت کرنا یا ’’باز پرس کرنا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتو بھی اس کے مفعول تو دو ہی آتے ہیں (۱) ایک وہ جس سے پوچھا جائے (۲) دوسرا وہ جس کے بارے میں پوچھا جائے۔ اس صورت میں پہلا مفعول تو بنفسہٖ آتا ہے اور دوسرے مفعول پر ’’عَنْ‘‘ کا صلہ لگتا ہے جیسے ’’ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ ‘‘ (الاعراف:۱۸۷) یعنی’’وہ تجھ سے پوچھتے ہیں قیامت کے بارے میں‘‘ اور کبھی ’’عن‘‘ کی بجائے (دوسرے مفعول پر) ’’ب‘‘ کا صلہ لگتا ہے جیسے ’’ فَسْـَٔــلْ(فاسألبِهٖ خَبِيْرًا (الفرقان:۵۹) یعنی ’’ اس کے بارے میں کسی باخبر سے پوچھ‘‘ اور بعض دفعہ پہلا مفعول حذف کردیا جاتا ہے۔ صرف دو مذکور ہوتا ہے جیسے ’’ سَاَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍ ‘‘ (المعارج:۱) یعنی’’ایک پوچھنے والے نے عذاب کے بارے میں پوچھا‘‘ یہاں ’’کس سے پوچھا؟‘‘ مذکور نہیں ہے۔ قرآن کریم میں آگے چل کر یہ تمام استعمالات ہمارے سامنے آئیں گے اور ان پر مزید بات اپنے اپنے موقع پر ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں