اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ ا لبقرہ آیت ۸۸ اور  ۸۹

۵۴:۲   وَ قَالُوۡا قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ ؕ بَلۡ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفۡرِہِمۡ فَقَلِیۡلًا مَّا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۸۸﴾وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ کِتٰبٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ ۙ وَ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ یَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚۖ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۸۹﴾ 

 ۱:۵۴      اللغۃ

۱:۵۴:۲ (۱)     [وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ] نیا لفظ اس عبارت میں صرف ’’غُلْفٌ‘‘، باقی کلمات پہلے بھی گزر چکے ہیں لہٰذا ان کا صرف اشارۃً   ترجمہ اور گزشتہ حوالے کے ساتھ ذکر کریں گے۔

’’وَ‘‘ یہاں مستانفہ ہے، ترجمہ ’’اور‘‘ہی ہوگا۔ دیکھئے۔ [۱:۷:۲(۱)]

’’قالوا‘‘( انہوں نے کہا ’’بیانِ احوال ہونے کی بناء پر ترجمہ ’’وہ کہتے ہیں‘‘ کیا جا سکتا ہے) کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد پر پہلی دفعہ [۱:۷:۲ (۵)] میں بات ہوئی تھی اور خود اس صیغہ (قالُوا)کی ساخت اور تعلیل وغیرہ کے لیے دیکھئے البقرہ: ۱۱ [۱:۹:۲ (۴)]

’’قُلُوبُنا‘‘ (ہمارے دل) اس مرکب اضافی کے آخر پر ضمیر مجرور (نَا) بمعنی ’’ہمارے/ہمارا‘‘ ہے جس سے پہلے اس کا مضاف ’’قلوب‘‘ ہے جس کا مادہ ’’ق ل ب‘‘اور وزن ’’فُعُوْلٌ‘‘ ہے۔ یہ ’’ قَلْبٌ ‘‘ بمعنی ’’دل‘‘ کی جمع مکسر ہے۔ لفظ ’’قلوب‘‘ (دلوں) پر بات البقرہ:۷ [۱:۶:۲ (۲)] اور پھر البقرہ: ۱۰ [۱:۸:۲ (۶)] میں ہوچکی ہے۔

[غُلْفٌ] کا مادہ ’’غ ل ف ‘‘ اور وزن ’’ فُعْلٌ ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (۱) ’’غلَف . . . . .  یَغلِفُ غَلْفًا (ضرب سے) کے معنی‘‘ ہیں ’’ . . . . .   پر غلاف چڑھانا یا . . . . . کو غلاف میں ڈالنا‘‘ مثلاً کہتے ہیں غَلَفْتُ السیفَ او الکتابَ او السَرْجَ‘‘  (میں نے تلوار یا کتاب یا زین پر غلاف چڑھایا) ۔ عربی کا لفظ  ’’غِلاف‘‘ (جو اسی مادہ سے ماخوذ اسم ہے) اردو میں مستعمل ہے (اگرچہ اپنے سارے عربی معانی کے ساتھ نہیں) جسے انگریزی میں cover یا case کہتے ہیں اور (۲) ’’ غلِفَ یَغلَفُ غَلَفاً ‘‘ (سمع سے) کے معنی ہیں ’’غیر مختون ہونا‘‘۔ عربی میں ’’ غلامٌ اغلفُ ‘‘اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کا ابھی ختنہ نہ ہوا ہو کیونکہ وہ ابھی ایک ’’غِطاء خِلقی‘‘ (پیدائشی پوشیدگی) میں ہوتا ہے۔ اور ’’ غَلِف قلبُہ ‘‘کے معنی ہیں ’’اس کے دل میں ہدایت نہ آئی نہ ٹِکی‘‘۔ اور باب تفعیل سے ’’ غلَّف لِحْیَتَہ بالحِناء ‘‘ کا مطلب ہے‘‘ اس نے اپنی داڑھی کو مہندی لگائی (یعنی مہندی سے پردہ پوشی کی) گویا اس مادہ سے تمام افعال میں بنیادی معنی پردہ اور پوشیدگی کے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا، بلکہ قرآن میں تو اس مادہ سے یہی ایک (زیر مطالعہ) لفظ ’’ غُلْفٌ ‘‘ صرف دو جگہ آیا ہے، ایک یہاں، دوسرے النساء:۱۵۵ میں۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں