اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر۷

خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ٪﴿۷﴾

۱:۶:۲ اللغۃ

۱:۲:۶(۱)     [خَتَمَ] کا مادہ ’’خ ت م‘‘ اور وزن ’’فَعَلَ‘‘ ہے ۔ یعنی یہ ثلاثی مجرد کے فعل ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب (پہلا صیغہ) ہے۔ اس مادہ (ختم) سے فعل ثلاثی مجرد باب ضرب سے اور ہمیشہ متعدی آتا ہے۔اکثر صلہ ’’علٰی‘‘ کے ساتھ اور کبھی بغیر صلہ کے (مفعول بنفسہ کے ساتھ) آتا ہے۔ مگر دونوں صورتوں ـ  میں ایک ہی باب (ضرب) سے ہوتے ہوئے بھی ـ معنی الگ الگ ہوتے ہیں اور عربی میں یہ فرق مصدر کے فرق سے ظاہر ہوتا ہے اس کی تفصیل یوں ہے۔

            ’’عَلٰي ‘‘ کے صلہ کے ساتھ یہ فعل خَتَمَ عَلی…یَختِمُ خِتامًا کی شکل میں آتا ہے اور اس کے معنی ’’… پر مہر لگا دینا،ـ  کو سر بمہر کردینا‘‘ (تاکہ اب (اس) میں نہ کچھ داخل ہوسکے اور نہ کچھ اس سے نکل سکے) قرآن کریم میں اس فعل سے اور ان معنی کے لیے صیغہ ماضی (خَتَمَ) تین جگہ (البقرہ: ۷، الانعام:۴۶ اور الجاثیہ :۲۳)اور صیغہ مضارع (یَختِمُ)ایک جگہ (الشوریٰ: ۲۴) اور نَختِمُ(جمع متکلم) بھی ایک جگہ (یٰسین: ۶۵) آیا ہے۔ اور ہر جگہ ان صیغوں کے ساتھ صلہ ’’ عَلٰي‘‘ ہی آتا ہے ان (مذکورہ بالا) معنی کے لیے اس فعل کا مصدر عموماً ’’خِتام‘‘ ہوتا ہے جو قرآن کریم میں بھی ایک جگہ (المطففین:۲۶) میں وارد ہوا ہے۔ اردو محاورے اور علی کے صلہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے مترجمین نے یہاں ’’خَتَمَ…‘‘  کا ترجمہ ’’مہر کی، مہر کردی، بند لگادیا، مہر لگادی، مہر لگا رکھی ہے‘‘ سے کیا ہے۔

            صلہ کے بغیر یہ فعل ثلاثی مجرد(اسی باب ضرب سے) خَتَمَ … یَختِمُ خَتماً  آتا ہے اور اس کے معنی ’’…(کسی کام)… کو پورا کرلینا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً ختم الکتاب: اس نے پوری کتاب پڑھ لی یا ختم العمل: اس نے کام مکمل کرلیا۔ اس صورت میں اس فعل کا مصدر عموماً ’’خَتْم‘‘آتا ہے۔  [اور اسی سے ’’خَتْم القرآن‘‘ استعمال ہوتا ہے] تاہم ان معنوں میں ـ یا صلہ کے بغیر یہ فعل قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوا۔ عربی زبان میں تو اس مادہ (ختم) سے مزید فیہ کے بعض ابواب سے بھی افعال مختلف معنوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں ـ بلکہ لفظ ’’اختتام‘‘ـــ جو باب افتعال کا مصدر ہے۔ اردو میں بھی مستعمل ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے مزید فیہ کا بھی کوئی فعل نہیں آیا ہے۔

            [اللّٰہ] کے امکانی مادہ اور اشتقاق وغیرہ پر ’’بسم اللہ‘‘ کی بحث میں بات ہوچکی ہے۔دیکھئے ۱:۱:۱ (۲)

۱:۶:۲ (۲)    [عَلٰي قُلُوْبِهِمْ] جو علی (پر) + قلوب (دلوں) +ھُم (ان کے) کا مرکب ہے۔ ان (تین) کلمات میں سے [علی]تو یہاں گزشتہ فعل ’’ختم‘‘ کے صلہ کے طَور پر آیا ہے اور ’’خَتم عَلٰی‘‘ کے معنی اور مصدر پر بات ابھی اوپر گزری ہےـــ تاہم بطور حرف الجّر کے بھی اس (عَلٰی)کے متعدد معنی اور استعمالات ہیں۔ اہم اور زیادہ مستعمل مواقع کا اردو ترجمہ حسبِ موقع (۱)…پر، (۲)…کے اوپر ، (۳)…کے باجود، (۴)… کے ہوتے ہوئے، (۵)…کے موقع پر (۶)…کے خلاف (۷)…کی بنا پر۔ وغیرہ سے کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ (علی) کبھی کسی دوسرے حرف الجّر مثلاً   مِنْ (سے)، بِ (کے ساتھ) اور فی (میں) کے معنی میں بھی آتا ہے ـ  اور یہی (علٰی) مختلف افعال کے ساتھ بطور صلہ استعمال ہوکر ان میں متعدد معانی پیدا کرتا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں