اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

۱:۸:۲(۶)     [فِىْ قُلُوْبِهِمْیہ فی (بمعنی ’’میں‘‘) +قُلُوب (دلوں) +ھم (ضمیر مجرور بمعنی ’’ان کے‘‘) کا مرکّب ہے۔ لفظ ’’قلوب‘‘ جمع مکسر ہے اس کا واحد ’’قَلْبٌ‘‘ہے جس کا مادہ ’’ق ل ب‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس کی جمع ’’فُعُوْلٌ‘‘کے وزن پر آئی ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد اور لفظ ’’قلب‘‘ کے معنی وغیرہ پر پہلے بات ہوچکی ہے۔   (دیکھئے ۱:۶:۲(۱))میں۔

۱:۸:۲(۷)     [مَرَضٌ ] کا مادہ ’’م ر ض‘‘اور وزن ’’فَعَلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’مرِض یَمرَض مَرَضًا‘‘ (زیادہ تر باب سمع سے) اور شاذ باب نصر سے(مرَض یمرُض) آتا ہے جس کے معنی  ’’بیمار ہونا‘‘ یا’’بیمار ہوجانا‘‘ ہوتے ہیں۔ یعنی یہ فعل لازم ہے۔ قرآن کریم میں اس (فعل مجرد) سے صرف ایک صیغہ ’’مَرِضْتُ‘‘  صرف ایک جگہ (الشعراء:۸۰) آیا ہے۔ اس مادے سے مزید فیہ کا کوئی فعل یا اسم مشتق قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ ’’مَرَض‘‘، ’’مریض‘‘ (اور اس کی جمع) ’’مَرْضٰی‘‘کے الفاظ بصورت معرفہ یا نکرہ مختلف حالتوں میں ۲۳ جگہ آئے ہیں۔

  • لفظ ’’مَرَض‘‘ اس مادہ کے فعل ثلاثی مجرد کے متعدد مصادر میں سے ایک مصدر اور اسم ہے جو ’’بیمار ہونا‘‘ یا ’’بیماری‘‘ کے معنوں میں آتا ہے۔ اس کا عام اردو ترجمہ تو ’’بیماری‘‘ یا ’’روگ‘‘ ہی کیا جاسکتا ہے اور خود لفظ ’’مَرَض‘‘ بھی اردو میں مستعمل ہے۔ بلکہ اپنے اصل عربی وزن (فَعَلٌ) اور ’’تذکیر‘‘ (مذکر ہونا) کے ساتھ جیسے "ع ’’مَرَض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ میں آیا ہے۔ البتہ قرآن کریم میں حسب ِ موقع ـــاور سیاق و سباق کی روشنی میںـــ اس کا اطلاق جسمانی اور بدنی یا روحانی اور معنوی ’’بیماری‘‘ پر کیا جاسکتا ہے۔

۱:۸:۲(۸)     [فَزَادَھُمُ اللّٰهُ مَرَضًا]  یہ ایک مکمل جملہ ہے جو کل پانچ کلمات (اسم، فعل، حرف) پر مشتمل ہے یعنی یہ ’’فَ‘‘ + ’’زادَ‘‘+ ’’ھم‘‘+’’اللہ‘‘+’’مرضاً‘‘کا مرکب ہے۔ جن میں نیا لفظ ’’زادَ‘‘ہے۔ باقی کلمات (حروف و اسماء) پر پہلے کئی دفعہ بات ہوچکی ہے۔

  • کلمہ (زاد) (جو فعل ہے) کا مادہ ’’ز ی د‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلَ‘‘ہے جس کی شکل اصلی ’’زَیَدَ‘‘ تھی جس میں یائے متحرکہ اپنے ماقبل کی فتحہ(ــــــَــــ) کے باعث الف میں بدل گئی۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد زاد یزید زیادۃ (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی لازم اور متعدی دونوں ہوتے ہیں یعنی ۱۔زیادہ ہونا ـ بڑھنا اور  ۲۔ (کسی کو) (کوئی چیز) زیادہ دینا یا  (کسی کو) (کسی چیزمیں) یا (کسی پہلو سے) بڑھا دینا۔

متعدی ہونے کی صورت میں ۱۔ یا تو اس فعل کے دو مفعول آتے ہیں جیسے ’’ زادہٗ درھمًا‘‘ (اس نے اس کو ایک درہم زیادہ دیا)۔۲ ۔ یا پھر ایک مفعول کے بعد ایک تمیز آتی ہے جیسے یہاں آیت زیر مطالعہ میں کلمہ ’’ مَرَضًا ‘‘ ہےـــ ۳۔ کبھی ایک مفعول حذف کردیا جاتا ہے جیسے آیہ کریمہ ’’ وَسَنَزِيْدُ الْمُحْسِنِيْنَ‘ (البقرہ:۵۸) میں صرف ایک مفعول ’’ محسنين‘‘ مذکور ہوا ہے  اور ۴۔ کبھی دونوں مفعول بھی حذف کر دیئے جاتے ہیں جیسے ثُمَّ يَطْمَعُ اَنْ اَزِيْدَ‘‘ (المدثر:۱۵) میں کسی مفعول کا ذکر نہیں ہے۔ یہ اور اس قسم کی دوسری مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی اور ہر ایک کی وضاحت اپنے موقع پر ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں