اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت ۷۲ اور ۷۳

     وَ اِذۡ قَتَلۡتُمۡ نَفۡسًا فَادّٰرَءۡتُمۡ فِیۡہَا ؕ وَ اللّٰہُ مُخۡرِجٌ مَّا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ ﴿ۚ۷۲﴾فَقُلۡنَا اضۡرِبُوۡہُ بِبَعۡضِہَا ؕ کَذٰلِکَ یُحۡیِ اللّٰہُ الۡمَوۡتٰی ۙ وَ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۷۳﴾فَقُلۡنَا اضۡرِبُوۡہُ بِبَعۡضِہَا ؕ کَذٰلِکَ یُحۡیِ اللّٰہُ الۡمَوۡتٰی ۙ وَ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۷۳﴾ 

۱:۴۵:۲       اللغۃ

[وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا] جو ’’وَ‘‘ (اور) + ’’اِذْ‘‘ (جب) + ’’قَتَلْتُمْ‘‘ (تم نے قتل کیا) + ’’نَفْسًا‘‘ (ایک جان یعنی شخص کو) کا مرکب ہے اس جملے کے تمام اجزاء کے معنی اور استعمال پر اس سے پہلے بات ہوچکی ہے چاہیں تو تفصیل کے لیے دیکھ لیجئے: ’’وَ‘‘ کے لیے [۱:۴:۱ (۳)] ’’اِذْ‘‘ کے لیے [۱:۲۱:۲ (۱)] ’’قتلتم‘‘ (قتل یقتل) کے لیے [۱:۳۴:۲ (۴)] اور ’’نَفْسًا‘‘ کے لیے [۱:۸:۲ (۴)] یہاں مترجمین نے ’’نفس‘‘ (نفسًا) کا ترجمہ ’’ایک جان، شخص، آدمی‘‘ سے کیا ہے۔ بعض نے صرف ’’ایک‘‘ کرکے فعل قتلتم کا ترجمہ ساتھ ’’خون کردیا‘‘ کیا ہے یعنی ’’ایک خون کردیا‘‘ باقی حضرات نے ’’قتلتم‘‘ کا ترجمہ ’’مار ڈالا تم نے، مار ڈالا تھا، قتل کیا, یا قتل کر ڈالا تھا‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ تمام تراجم ہم معنی ہی ہیں اور یہاں ’’تم نے قتل کیا‘‘ کا مطلب ہے ’’تمہارے اندر قتل ہوا‘‘۔ کیونکہ سب نے مل کر اسے قتل نہیں کیا تھا، نیز دیکھئے حصہ ’’الاعراب‘‘۔

۱:۴۵:۲ (۱)     [ فَادَّارَئْتُمْ فِیْھَا] (یہاں ’’فادارء تم‘‘ رسم املائی میں سمجھانے کے لیے لکھا گیا ہے رسم عثمانی پر بات آگے ’’الرسم‘‘ میں ہوگی)

 اس میں آخری ’’فیھا‘‘ (فی+ھا) کا ترجمہ تو ہے ’’اس کے بارے میں‘‘ یہاں ضمیر مؤنث (ھا) ’’نفس‘‘ کے لیے ہے جو مؤنث سماعی ہے۔ ’’فَادَّارَئْ تُمْ‘‘ کی ابتدائی ’’فَاء‘‘ (فَ) تو عاطفہ (بمعنی ’’پھر/ پس‘‘) ہے۔ باقی فعل ’’اِدّارَئْ تُمْ‘‘ ہے۔ اس کا مادہ    ’’درء‘‘ اور وزن اصلی ’’تَفَاعَلْتَم‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’تدارَئْ تُم‘‘ تھی۔ عربوں کے تلفظ کا طریقہ یہ ہے کہ باب تفاعل میں فاء کلمہ اگر ت  ث د ذ ز  س  ص  ط  ظ  میں سے کوئی ایک حرف ہو تو ’’تفاعل‘‘ کی ’’ت‘‘ کو بھی اسی حرف میں بدل کر بولتے ہیں۔ اس طرح (مثلاً اسی) ’’تدارَئْ تُمْ‘‘ سے ’’دَدَارَئْ تُمْ‘‘ بنے گا۔ جس میں مضاعف کے قاعدہ کے مطابق ایک ’’ د ‘‘ دوسری ’’ د ‘‘ میں مدغم کرنے سے ایک مشدد (تشدید والی) ’’ دّ ‘‘ پیدا ہوگی۔ یعنی اب یہ لفظ ’’دَّارَئْتُمْ‘‘ بنے گا۔ اب مشدد ’’ دّ ‘‘ کو پڑھنے کے لیے ابتداء میں ایک ہمزۃ الوصل لگا دیا جاتا ہے جو مکسور پڑھا جاتا ہے اور یوں یہ لفظ ’’اِدّارَئْ تُمْ‘‘ لکھا اور بولا جاتا ہے یعنی ’’تدارَئْ تُمْ = دَدَارَئْ تُمْ =دّارَئْ تُمْ= اِدّارَئْ تُمْ‘‘ یہاں زیر مطالعہ آیت میں اس لفظ کے شروع میں ’’فَ‘‘ ہے جس کی وجہ سے ’’فَادّرَائْ تُمْ‘‘ میں ہمزۃ الوصل پڑھنے میں نہیں آتا (مگر لکھا ضرور جاتا ہے)۔

 

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں