اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

۲۔  اِلّا اسمیہ: کبھی ’’اِلَّا‘‘، ’’غیر‘‘ کے معنوں میں اپنے مابعد (مستثنیٰ) سے مل کر اپنے سے ماقبل کی صفت (یا نعت) کے طورپر بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت اسے اِلاّ اسمیہ (بمعنی’’غیر‘‘) کہتے ہیں۔ اس (اِلّا اسمیہ کی) صورت میں اس کا ماقبل ہمیشہ ’’جمع نکرہ‘‘ ہوتا ہے جیسے آیہ کریمہ ’’ لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ‘‘ (الانبیاء:۲۲) یعنی اگر کوئی ’’غیر اللہ‘‘ آلھۃ۔۔ ہوتے تو…

مندرجہ بالا دونوں صورتوں (یعنی اِلَّا استثنائیہ یا اسمیہ) میں ’ اِلَّا‘‘ کا اردو ترجمہ حسب موقع عموماً ’’…کے سوا،  بجز،  مگر ،  لیکن،  مگر …  نہیں،  … کو چھوڑ کر،  بلکہ،  بلکہ اس لئے کہ …،  …کو‘‘ـــ  یا اس سے ملِتے جُلتے ہم معنی لفظوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یعنی یہ (اِلَّا) انگریزی کے EXCEPT،  BUT،  BUT NOT،  OTHER THAN  یا   NO OTHER THEN   کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

۳۔  ’’ اِلَّا‘‘ عاطفہ: کبھی ’’اِلَّا‘‘ ’’وَلَا‘‘کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت اسے ’’ اِلَّا عَاطفۃ‘‘ کہتے ہیں۔ اور اسکا اردو ترجمہ ’’اور نہ‘‘، یا ’’اور نہ ہی‘‘ سے کیا جانا چاہئے۔ جیسے ’ ’لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَیۡکُمۡ حُجَّۃٌ ٭ۙ اِلَّا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا‘‘ (البقرہ:۱۵۰) میں۔

۴۔ اِلّا شرطیہ : کبھی ’’ اِلَّا ‘‘دراصل ’’اِنْ لَا‘‘ کی مخفف شکل ہوتی ہے۔ اسے ’’ اِلَّا شرطیہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ کسی منفی فعل سے پہلے آتا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ’’اگر نہ…‘‘ ہوتا ہے۔ اس کا استثناء والے ’’ اِلَّا ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہوتاـــ

            ’’ اِلَّا‘‘کی ان مختلف صورتوں کی مزید وضاحت اپنے اپنے موقع پر ہوگی۔ان شاء اللہ۔ آیت زیر مطالعہ میں اِلَّا استثنائیہ ہے اور اس کا اردو ترجمہ ’’مگر ، بجز…، … کے سِوا‘‘ کے ساتھ ہوگا

۱:۸:۲(۴)]     اَنْفُسَھُمْ] جو انفس+ھم کا مرکّب ہے اس میں ’’ھم‘‘ تو ضمیرِ مجرور بمعنی ’’ان کے‘‘، ’’ان کی ‘‘ یا ’’ان کی اپنی‘‘ یا ’’ان کے اپنے‘‘ ہے۔ اور کلمہ ’’ انفس‘‘ جمع ہے جس کا واحد ’’نَفْسٌ‘‘ہے جس کا مادہ ’’ن ف س‘‘اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ہے (صیغۂ جمع کا وزن ’’اَفْعُلٌ‘‘ہے اس مادہ (نفس) سے فعل ثلاثی مجرد مختلف ابواب (نصر، سمع اور کرم) سے مختلف مصادر کے ساتھ مختلف معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے (مثلاً نفیس ہونا۔ تنگ نظر ہونا۔ بچّہ جننا وغیرہ)۔ تاہم قرآن کریم میں اس (ثلاثی مجرد) سے کوئی فعل استعمال ہی نہیں ہوا۔ البتہ مزید فیہ کے باب ’’تفعّل‘‘ اور ’’تفاعل‘‘ سے ایک ایک صیغۂ فعل آیا ہے۔ جس کا بیان اپنی جگہ آئے گا۔ ان شاء اللہ۔

لفظ ’’نفس‘‘جس کی جمع مکسر’’نفوس‘‘ اور’’انفس‘‘ہیں (اور یہ دونوں جمعیں قرآن کریم میں مستعمل ہیں) اپنے ’’استعمالات‘‘ کے لحاظ سے یہ ایک کثیر المعانی لفظ ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ حسبِ موقع  ’’جان،  جاندار،  شخص،  فرد،  ذات،  جی (دل یا باطن)  اور  کبھی خود  یا  اپنا آپ‘‘  سے کیا جاتا ہے۔ اور کبھی اس کے معنی ’’جنس و نوع‘‘ اور ’’خواہش و میلان‘‘ کے بھی لیے جاسکتے ہیں۔ اور انگریزی میں جو مختلف ضمائر  THEM،  HIM،  HER،  MY،  OUR   وغیرہ کے ساتھ SELF یا  SELVES  لگاکر ’’خود، بذاتِ خود، آپ ہی ، اپنے آپ کو‘‘ وغیرہ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ عربی میں یہ معنی لفظ ’’نفس‘‘ یا اس کی جمع (انفس) کو مناسب ضمیر کی طرف مضاف کر دینے سے پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’نفسہ، نفسھا، نفسک، نفسی‘‘ یا  ’’ انفسھم،انفسھن، انفسکم، انفسنا‘‘ـــ (اور یہ تمام تراکیب قرآن کریم میں وارد ہوئی ہیں)ـــ

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں