اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

’’بچنا‘‘ کے ساتھ ترجمہ کرتے وقت مفعول بہٖ(جس سے بچنا مقصود ہے)اگر مذکور نہ ہو (جیسے یہاں ہے) تو اس کا تعین عبارت کے سیاق و سباق سے کرلیاجاتا ہے۔ مثلاً یہاں (آیت زیر مطالعہ میں) ’’دوزخ یا عذاب‘‘(سے بچنا) مراد لیا جاسکتا ہے۔

[الَّذِىْ] کا ترجمہ ’’وہ جو کہ ‘‘/  ’’وہ جس نے کہ‘‘  ہوگا نیز دیکھئے ۱:۶:۱(۱)۔

        [جَعَلَ] کا مادہ ’’ج ع ل‘‘ اور وزن ’’فَعَل‘‘ ہے۔ یعنی یہ ماضی معروف کاپہلا (واحد مذکر غائب) صیغہ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد (جَعَل … یجعَل جَعْلًا) کے باب اور معنی و استعمال پر البقرہ :۱۹  یعنی ۱:۱۴:۲(۶)میں بات ہوچکی ہے۔

[لَكُمُ] جو لام الجر (لِ) بمعنی ’’کے لیے ‘‘+کُمْ (تمہارا، تمہارے) کا مرکب ہے۔ لام الجر ضمائر کے ساتھ ہمیشہ مفتوح آتا ہے۔ اس کے معانی اور استعمال پر الفاتحہ:۲ ـــ ۱:۲:۱(۴)میں بات ہوچکی ہے۔

[الْاَرْضَ] کا مادہ ’’أرض‘‘ اور وزن (لام تعریف کو نکال کر) ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل وغیرہ اور لفظ ’’ارض‘‘ کے معنی وغیرہ کے بارے میں البقرہ:۱۱ کے ضمن میں ۱:۹:۲(۴) پر بحث گزر چکی ہے۔ یہاں ’’ الارض‘‘ کا ترجمہ ’’زمین‘‘ یعنی کرّہِ ارضی سے کیا جاتا ہے۔

۱:۱۶:۲(۶)     [ فِرَاشًا] کا مادہ ’’ف ر ش‘‘ اور وزن ’’فِعالٌ‘‘ ہے (جویہاں بوجہ نصب ’’فِعالاً‘‘ ہو گیا ہے) اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد فرَش … یفِرُش فِراشًا (باب نصر اور ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’…کو بچھانا، پھیلانا‘‘ لفظ ’’فَرْشٌ‘‘ (جو اردو میں عام مستعمل ہے) اسی فعل کا ایک مصدر ہے جو بمعنی اسم مفعول (مَفْرُوش= بچھایا ہوا) استعمال ہوتا ہے۔ اور زیرِ مطالعہ لفظ ’’فِراش‘‘ بھی اسی فعل کا مصدر ہے اور ’’فرش‘‘ کے (اردو والے) معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا اردو ترجمہ ’’بچھونا یا فرش‘‘ ہی کیا جاتا ہے۔

  • قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کا صرف ایک صیغہ آیا ہے (الذاریات :۲۸) البتّہ ’’فرش، فِراش، فُرُش(جو فرش کی جمع ہے)‘‘ اور الفَرَاش (جو فراشَۃ کی جمع ہے) کے کلمات چار پانچ جگہ آئے ہیں۔ لفظ ’’فَرْش‘‘ اور ’’فراش‘‘ کے بچھونے کی بجائے کچھ اَوْر معنی بھی ہوتے ہیں ان کا ذکر اپنی جگہ آئے گا۔ (الانعام: ۱۴۲ اور القارعہ:۴)

۱:۱۶:۲(۷)     [وَالسَّمَاۗءَ] میں ’’وَ‘‘ تو عاطفہ (بمعنی’’اور‘‘) ہے اور ’’السماء‘‘ کا مادہ ’’س م و‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فَعَالٌ‘‘ ہے۔ اصلی شکل ’’سَمَاوٌ‘‘ تھی مگر الف ممدودہ کے بعد آنے والی ’’و‘‘ (اور ’’ی‘‘ بھی)  ’’ء‘‘ کی شکل میں لکھی اور بولی جاتی ہے۔ اس مادہ (سمو) سے فعل ثلاثی مجرد ’’سَمَا یَسْمُوْ سُمُوًّا‘‘(دراصل سمَوَ یسمُوُ) باب نصر سے آتا ہے اور یہ ’’بلند ہونا، اونچا ہونا‘‘ اور چند دیگر معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جن کا ذکر ’’بسم اللہ‘‘ کی بحث میں سورۃ الفاتحہ کے شروع میں ہوچکا ہے۔[ ۱:۱:۱(۱) میں]۔تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد کا کوئی صیغہ استعمال نہیں ہوا۔ مزید فیہ (تفعیل) کے کچھ صیغے آئے ہیں جن کا ذکر اپنی جگہ آئے گا۔ ان شاء اللہ۔

لفظ ’’ السّماء ‘‘ (یا ’’سماء‘‘) اگرچہ عربی زبان میں متعدد معنی رکھتا ہے (مثلاً   ا ٓسمان ، چھت، گھوڑے کی پیٹھ، بادل، بارش وغیرہ) تاہم اردو میں اس کا ترجمہ ’’آسمان‘‘ ہی کیا جاتا ہے اور قرآن کریم میں یہ زیادہ تر استعمال بھی ان ہی معنوں میں ہوا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں