اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

۱:۱۴:۲(۵) [وَبَرْقٌ] کی ’’وَ‘‘ بھی عاطفہ ہے۔ اور ’’برق‘‘ کا مادہ ’’ب ر ق‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد زیادہ تر تو ’’برَق یبرُق بَرْقًا‘‘ (باب نصر سے)آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’آسمان میں بجلی کا چمکنا‘‘ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’بَرق البَرْقُ‘‘ (بجلی کوندی) یا ’’برَق السماءُ‘‘ (آسمان میں بجلی کی چمک ظاہر ہوئی)اردو کے مصدر ’’چمکنا‘‘ کی طرح عربی میں بھی یہ فعل بطور محاورہ ’’چمکنا دمکنا، ’’سنورنا "اور "بننا ٹھننا‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس باب سے اور ان معنوں کے لیے اس فعل کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ صرف مصدر آیا ہے۔

  • البتّہ اسی مادہ فعل مجرد ’’برِق یبرَقُ بَرَقًا‘‘ (باب سمع سے) ’’دہشت زدہ ہونا‘‘کے معنوں میں آتا ہے۔اور اس باب سے (اور ان معنوں میں)فعل ماضی کا  ایک صیغہ(بَرِقَ) قرآن کریم میں بھی(صرف)ایک جگہ(القیامہ:۷) وارد ہوا ہے۔
  • کلمہ "بَرْقٌ" اس مادہ سے باب نصر کے فعل کا مصدر ہے اور اس کے معنی"چمکنا" بھی ہوسکتے ہیں اور ’’(بجلی کی)چمک‘‘ بھی ان دونوں معنی کے لحاظ سے اس کا تعلق بنیادی طور پر ’’ آسمانی بجلی‘‘سے ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ (بَرْقٌ) مفرد مرکب معرفہ نکرہ مختلف صورتوں میں کل پانچ جگہ وارد ہوا ہے۔

۱:۱۴:۲(۶)    [يَجْعَلُوْنَ] کا مادہ ’’ج ع ل‘‘ اور وزن ’’یَفْعَلُوْنَ‘‘ہے۔ یعنی یہ فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس مادہ (جعل) سے فعل ثلاثی مجرد عموماً ’’جعَل… یَجْعَل جَعْلًا‘‘(باب فتح سے)آتا ہے اور اس کےمتعددمعنی ہیں (۱)’’…کو پیدا کرنا‘‘ (۲)…کو بنانا (۳)… کو بنا ڈالنا (۴) …کو مقرر کرنا (۵) …کو تیار کرنا (۶) …کو ڈالنا، ڈال لینا یا دے لینا (۷) … کو عطا کرنا (۸) … کو خیال کرنا، سمجھ بیٹھنا (۹) … کو برابر ٹھیرانا (۱۰) … سے کوئی کام کروانا (۱۱) (کسی فعل کو) شروع کرنا وغیرہ۔ ان ( مذکورہ بالا) میں سے اکثر معنوں کے لیے یہ دو مفعول کے ساتھ آتا ہے جیسے … کو …بنا دینا اور دونوں مفعول بنفسہ (منصوب) آتے ہیں۔ تاہم کبھی یہ صرف ایک مفعول کے ساتھ ہی آتا ہے۔ مثلاً ’’پیدا کرنا‘‘ یا ’’ڈالنا‘‘ کی صورت میں نمبر۱۰ اور نمبر۱۱  والے معنوں کی صورت میں یہ کسی دوسرے فعل کے مضارع کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ اور اس استعمال کے کچھ خاص قواعد ہیں۔

  • یہ فعل (جعَل) قرآن کریم میں بکثرت اور مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے مثلاً یہاں (زیر مطالعہ آیت میں)یہ فعل ’’ڈالنا، ڈال لینا، دے لینا‘‘ کے معنی میں آیا ہے۔ جس کا بامحاورہ اردو ترجمہ بعض نے ’’ٹھونس لینا‘‘سے کیا ہے۔ قرآن کریم میں اس مادہ (جعل) سے فعل ثلاثی مجرد کے مختلف صیغے ۳۴۵ جگہ اور بعض مشتقات ۶ جگہ آئے ہیں  ـــ

۱:۱۴:۲(۷)     [اَصَابِعَھُمْ] میں آخری ’’ھم‘‘ تو ضمیر مجرور بمعنی ’’ان کا؍کی‘‘ ہے اور لفظ ’’ اَصَابِعَ ‘‘ (جو یہاں منصوب ہے) کا مادہ ’’ص ب ع‘‘ اور وزن ’’اَفَاعِلُ‘‘ (غیر منصوب)ہے۔ ’’اَصَابع‘‘ کا واحد ’’اصْبعٌ‘‘ ہے جو ابتدائی ہمزہ(ا) اور ’’ب‘‘ کی مختلف حرکات کے ساتھ چھ سات مختلف طریقوں سے بولا جاتا ہے تاہم اس کی زیادہ مستعمل اور لہٰذا زیادہ صحیح صورتیں دو ہی ہیں ’’اِصْبَعٌ‘‘ اور ’’اِصبِعٌ‘‘ (دونوں طرح)۔ اور اس کے معنی ’’ہاتھ یا پاؤں کی انگلی‘‘ ہیں ـــ عربی زبان میں یہ لفظ (اصبع) زیادہ تر مونث اور کبھی کبھار مذکر بھی استعمال ہوتا ہے۔

  • اس مادہ (صبع)سے فعل ثلاثی مجرد ’’صبَع یصبَع صبعًا‘‘ (باب فتح سے) بغیر صلہ کے (صبعَہٗ) ’’کسی کو متکبر بنا دینا‘‘ اور ’’تکبر پر اکسانا‘‘ کے معنی دیتا ہے۔ اور (زیادہ تر) ’’علی‘‘ یا ’’باء‘‘(بِ) کے صلہ کے ساتھ(یعنی صبع علیہ وبہ) ’’کسی کی طرف انگلی سے اشارہ کرنا‘‘ یا ’’انگلی کے اشارے سے رہنمائی کرنا‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ صرف یہی کلمہ ’’اصابع‘‘ (بصورت جمع) ہی صرف دو جگہ (البقرہ:۱۹  اور نوح:۷)میں وارد ہواہے۔
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں