۱:۲:۱ (۴)(۲) [اَلْعٰلَمِین]یہ لفظ جو عام عربی املاء میں ’’العالمین‘‘ لکھا جاتا ہے۔ ’’عالم‘‘ (لام مفتوحہ کے ساتھ) کی جمع سالم مذکّر کی معرف باللام اور مجرور صورت ہے ۔ اور ’’عالم‘‘ کا مادّہ ’’ع ل م‘‘ اور وزن فَاعَلٌ (عین کی فتحہ ــــــَــــ کے ساتھ ) ہے۔
- اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد عَلِم یَعلَمُ عِلْمًا (باب سمع سے) بمعنی ’’…کو جاننا یا جان لینا‘‘ ہمیشہ متعد ی اور اکثر بغیر صلہ کے، مگر کبھی کبھی باء (بِ) کے صلے کے ساتھ آتا ہے یعنی عَلِمَ(س)بہ= … سے آگاہ ہونا البتہ عَلَمَ …یَعْلُمُ (نصر سے) اور عَلَمَ … یَعلِمُ (ضرب سے) عَلْمًا ہمیشہ بغیر صلہ کے آتا ہے اور اس کے معنی ہیں … کو نشان لگانا، … کے لئے علامت مقرر کرنا لفظ عالم کا تعلق بظاہر ان دوسرے معنوں کے ساتھ زیادہ ہے۔
- لفظ ’’عالَم‘‘ کی جمع مکسر’’عَوَالِم‘‘ (جو قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوئی) اور جمع سالم مذکّر کے طریقے پر ’’عَالَمُوْن‘‘ بنتی ہے۔ (جس کی نصبی اور جری صورت ’’عالَمین‘‘ ہے)۔ کتبِ لغت میں بیان ہوا ہے کہ اس وزن (فاعَل) سے جمع مذکر سالم کی واحد مثال یہی لفظ (عالَم) ہے۔ عربی زبان میں اس کی اور کوئی مثال نہیں ملتی ۔[1]
- لفظ ’’عالَم‘‘اسم جامد ہے یعنی اپنے مصدری معنوں سے اسمائے مشتقہ کے معروف صرفی اوزان کے مطابق ’’مشتق‘‘ نہیں ہے ۔ بلکہ ’’ما ٔخوذ‘‘ ہے۔ ایسے اسماء میں بھی اپنے مصدری معنوں کے ساتھ ایک مناسبت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے لفظ ’’عالَم‘‘ کی مناسبت مادہ ’’ع ل م‘‘ میں سے اس کے فعل ثلاثی مجرد کے پہلے معنی (عِلْم) کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے اور دوسرے معنی (علم = علامۃ) کے ساتھ بھی یعنی عَالم کے بنیادی معنی ہیں۔ وہ جو کسی کو جاننے کا ذریعہ یا اس کی پہچان کی علامت ہو۔ اس طرح ’’عالَمْ‘‘سے مراد خالق و مالک کے وجود کو جاننے کی علامت یا ذریعہ ہے۔
- لفظ عالَم اسم جمع ہے ۔[2] یعنی اس میں خود ہی جمع کے معنی ہیں۔ یہ لفظ ’’تمام مخلوق ‘‘ ’’دنیا‘‘ ’’جملہ اصنافِ مخلوقات‘‘ اور بعض دفعہ مخلوقات کی کسی خاص صنف یا ایک مکمل گروہ کے لئے بھی آتا ہے جیسے عالم الحیوانات (حیوانوں کی دنیا) ـ اردو فارسی میں یہ لفظ (عالم) اپنے اصل عربی معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور بعض دفعہ اپنے اصل عربی معنی سے ہٹ کر بھی ۔ مثلاً گرمی کا یہ عالم ہے کہ …
___________________________________
[1] فیروز آبادی نے القاموس المحیط میں اس کی دوسری مثال ’’یاسمون‘‘ (یاسمین) کی دی ہے۔ مگر یہ لفظ دراصل فارسی زبان سے آیا ہے اور یہ ایک معروف خوشبو دار پھول اور اس کے پودے کا نام ہے جسے اُردو میں چنبیلی کہتے ہیں۔
[2]اسم جمع میں جمع کے معنی پائے جائیں جیسے اُمَّۃٌ، قَبِیلَۃٌ، قومٌ، رَھْطٌ وغیرہ۔ ایسا لفظ واحد (مفرد) کے ساتھ اس لحاظ سے مشابہ ہوتا ہے کہ اس سے تثنیہ اور جمع کے صیغے بن سکتے ہیں (امم‘ اقوام کی طرح) اگرچہ ان کا واحد بھی بمعنی جمع استعمال ہوتا ہے جیسے اردو میں ’’لوگ‘‘۔