اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر  ۱۰۹ اور ۱۱۰

۲ : ۶۶    وَدَّ کَثِیۡرٌ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ لَوۡ یَرُدُّوۡنَکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِکُمۡ کُفَّارًا ۚۖ حَسَدًا مِّنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡحَقُّ ۚ فَاعۡفُوۡا وَ اصۡفَحُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱۰۹﴾وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ وَ مَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ تَجِدُوۡہُ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۱۱۰﴾   

۲ : ۶۶ : ۱      اللغۃ

۲ : ۶۶ : ۱ (۱)  [وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ]

(۱)  ’’ وَدَّ ‘‘کا مادہ ’’ و د د ‘‘اور وزن (اصلی)’’فعل‘‘ ہے۔ اس سے فعل مجردباب سمع اور فتح دونوں سے آتا ہے۔ یعنی. . . . وَدَّ  یَوَدُّ وَدًّا  وَ مَوَدَّ ۃٌ  ماضی مضارع دراصل وَدَدَ یَوْدَدُ تھے، پھر مضاعف کے قاعدے کے مطابق صیغہ ماضی میں مثل اول متحرک کو ساکن کرکے مثل ثانی میں مدغم کر دیا جاتا ہے یعنی وَدَدَ  =وَ دْدَ=  وَ دَّ . . . .اورصیغہ مضارع میں متحرک مثل اول کی حرکت ماقبل ساکن حرف علت ’’و ‘‘ کو منتقل ہوجاتی ہے اور اب ساکن مثل اول مثل ثانی میں مدغم ہوجاتا ہے یعنی یَوْدَدُیَوَدْدُ یَوَدُّ ۔اس فعل میں بنیادی معنی ’’ . . . .سے محبت کرنا،  . . . .کو دل سے چاہنا،  . . . .کو دوست رکھنا‘‘ ہیں اور پھر اس میں ’’ . . . .کی تمنا کرنا ۔ آرزو کرنا اور   . . . .کی خواہش کرنا ‘‘  کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔

اس فعل کا مفعول بنفسہ بھی آتا ہے۔ لیکن زیادہ تر اس کا مفعول حرف تمنا ’’لَوْ‘‘(کاش کہ)یا ’’اَنْ‘‘(کہ) سے شروع ہونے والے جملے کی صورت میں آتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغے ۱۶ جگہ آئے ہیں جن میں سے صرف ایک جگہ (آل عمران: ۱۱۸) یہ مفعول بنفسہ کے ساتھ آیا ہے۔ تین جگہ ’’اَنْ‘‘کے ساتھ باقی سب جگہ ’’لَوْ‘‘کے ساتھ آیا ہے اور بعض دفعہ دونوں معنی کو اردو میں صرف ’’چاہنا‘‘یا ’’دل سے چاہنا‘‘ کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں۔ اس فعل مجرد کے متعدد مصادر آئے ہیں، ان میں سے دو (وَدٌّ (بضم الواو)اور ’’ مَوَدَّ ۃٌ ‘‘قرآن کریم میں آئے ہیں۔ نیز مزید فیہ کے باب مفاعلہ سے ایک صیغہ فعل کے علاوہ اس مادہ سے متعدد ماخوذ و مشتق اسم (وَدُوْد، وَ دٌّ اور مَوَدَّ ۃٌ وغیرہ)بھی قرآن میں وارد ہوئے ہیں۔ نیز دیکھئے البقرہ: ۹۶ [۲ : ۵۹ : ۱ (۳)] زیر مطالعہ فعل ’’ وَ دَّ‘‘صیغہ ماضی ہے مگر بیان واقعہ اور سیاق چاہتے / یہ چاہتے ہیں‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ ایک آدھ نے ’’چاہا‘‘(بصورت ماضی) بھی ترجمہ (لفظی)کیا ہے اور بعض نے ’’ وَ دٌّ ‘‘ کا فاعل ’’اہل کتاب‘‘(جن کا ذکر آگے آرہا ہے) کی بجائے ان کے ’’دل‘‘کو ہی بتا کر بامحاورہ بصورت’’ . . . .کا دل چاہتا ہے ‘‘سے کیا ہے، جس میں ’’تمنا‘‘ والا مفہوم موجود ہے۔

(۲)  ’’ كَثِيْرٌ ‘‘ (بہت سے / بہت / بہتیرے) ۔ جو ’’ک ث ر‘‘سے فعیل کے وزن پر اسم مبالغہ ہے اردو. . . . میں مستعمل ہے۔ اس کے متعلق مفصل بحث البقرہ: ۲۶ [۲ : ۱۹ : ۱ (۱۰)]میں ہوئی تھی۔

(۳) ’’مِنْ‘‘ (میں سے)بہت دفعہ گزرا ہے۔ نیز دیکھئے البقرہ:۳ [۲ : ۲ : ۱ (۵)]

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں