اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ
  • ’’اَشْرَکُوْا‘‘ اس مادہ سے بابِ افعال کا صیغہ ٔ ماضی جمع مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’اَشْرَک . . . . یُشرِکُ اِشراکًا‘‘ کے معنی ہیں: ’’. . . . کو حصہ دار (شریک) بنا لینا‘‘۔ اس کا مفعول بھی بنفسہ آتا ہے۔ جیسے قرآن میں ہے۔ ’’ وَاَشْرِكْهُ فِيْٓ اَمْرِيْ ‘‘ (طہٰ: ۳۲) یعنی ’’تو اسے میرے کام میں شریک کر دے‘‘۔ جس چیز میں حصہ دار بنایا جائے اس پر ’’فی‘‘ لگتا ہے جیسے اوپر کی مثال میں ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کے شریک (حصہ دار) بنانے کی بات ہو تو اسم جلالت یا اس کے لیے ضمیر پر  ’’با‘‘ (بِ)  کا صلہ لگتا ہے یعنی کہتے ہیں  ’’اَشْرَکَ باللّٰہِ‘‘  ’’اس نے اللہ کا شریک بنایا‘‘ یا ’’اس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا‘‘۔ اس شرک کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاً خدا کی ذات اور اس کی صفات میں شریک بنانا یا سمجھ لینا۔  ’’اِشراک‘‘ کے یہ معنی اتنے معروف ہیں کہ اگر اس کے ساتھ ’’باللّٰہ‘‘ نہ بھی لگا ہو تب بھی اس فعل سے ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا‘‘ ہی مراد ہوتا ہے جیسے زیر مطالعہ صیغہ  ’’اشرَکوا‘‘  کا مطلب ہی یہ ہو گا ’’انہوں نے شرک کیا اللہ کے ساتھ‘‘۔
  • چونکہ اہل عرب کا قبل از اسلام عام مذہب یہی شرک تھا انہوں نے بتوں وغیرہ کو خدا کے شریک بنا رکھا تھا لہٰذا قرآن کریم میں ان کا عموماً ’’المشرکون‘‘  (شرک کرنے والے) اور ’’الذین اشرکوا‘‘  (جنہوں نے شرک کیا) کہہ کر ذکر کیا جاتا ہے۔ اس وقت یہ فعل ایک خاص معنی (ایک گروہ کا مذہب) دیتا ہے۔ اگرچہ اس کے لفظی معنی تو مطلقًا ’’شرک کرنا‘‘ ہیں یعنی جو بھی جس قسم کا شرک کرتا ہے اور جس چیز یا شخص کو جس معاملے میں بھی اللہ کا شریک یا حصہ دار سمجھ لیتا ہے۔
  • قرآن کریم میں اس مادہ سے زیادہ تر فعل کے صیغے اسی باب اِفعال سے ستر (۷۰) سے زائد جگہ آئے ہیں۔ ایک جگہ بابِ مفاعلہ کا ایک فعل آیا ہے‘ البتہ مشتق و ماخوذ اسماء میں فعل مجرد اور بابِ افتعال سے بھی بہت سے کلمات (مثلاً شریک، شرکاء، مشرک، مشترکون وغیرہ) ۹۵ مقامات پر آئے ہیں۔ ان پر مفصل بات حسب موقع ہو گی‘ اِن شاء اللہ تعالیٰ۔
  • زیر مطالعہ عبارت ’’ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا ‘‘ کا ترجمہ تو بنتا ہے ’’اور ان لوگوں میں سے جنہوں نے (خدا کے ساتھ) شرک کیا‘‘۔ تاہم اس سے مراد آنحضرت ﷺ کے زمانے کے ’’مشرکین عرب‘‘ ہیں (اس سے پہلے اس زمانے کے یہودیوں کا ذکر ہوا ہے) اسی لیے بیشتر مترجمین نے یہاں ترجمہ ’’مشرکوں میں سے‘‘ ہی کیا ہے۔ اس عبارت کے ابتدائی ’’مِن‘‘ کی وجہ سے اس کا ترجمہ دو طرح کیا جا سکتا ہے۔ اس پر مزید بات آگے حصہ ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی۔

۱:۵۹:۲(۳)    [یَوَدُّ اَحَدَھُمْ]

’’یَوَدُّ‘‘  کا مادہ ’’ودد‘‘ اور وزن اصلی  ’’یَفْعَلُ‘‘  ہے جس کی اصلی شکل ’’یَوْدَدُ‘‘  تھی‘ پھر دال متحرکہ ما قبل ساکن حرف علت (و) کی وجہ سے دال کی حرکت فتحہ (ــــــَــــ) اس ’’و‘‘ کو دے کر ساکن ’’دال‘‘ کا دوسری (آخری) دال میں ادغام کر دیا گیا یعنی  ’’یَوْدَدُ یَوَدْدُ یَوَدُّ‘‘۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں