۱:۱۹:۲(۱۰) [کَثِیْرًا] کا مادہ ’’ک ث ر‘‘ اورو زن ’’فَعِیْلٌ‘‘ہے (جو عبارت میں منصوب ہے اس کی وجہ بحث ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’کثُر یکثُر کثرۃً (باب کرم سے)آئے تو اس کے معنی ’’زیادہ ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ اس مادہ سے بعض الفاظ مثلاً ’’کثیر‘‘، ’’کثرت‘‘ جو عربی میں ’’کثرۃ‘‘ لکھا جاتا ہے)اردو میں بھی مستعمل ہیں۔ اس لیے اس فعل (کَثُرَ) کا ترجمہ ’’کثیر ہونا‘‘اور ’’بکثرت ہونا‘‘سے بھی کیا جاسکتا ہے۔لفظ ’’کَثیر‘‘ (زیادہ) اور قلیل‘‘ (تھوڑا) ایک دوسرے کی ضد ہیں اور دونوں اردو میں مستعمل ہیں ـــ اس مادہ (کثر) سے فعل مجرد باب نصر ینصر سے بطور فعل متعدی بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کثَر …یکثُرا کثْرًا کے معنی ’’…پر کثرت کے لحاظ سے غالب ہونا‘‘ہیں۔ تاہم یہ فعل قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔
- قرآن کریم میں اس مادہ (کثر)سے فعل مجرد صرف باب کرُم سے ہی استعمال ہوا ہے اور اس کے بھی صرف دو ہی صیغے آئے ہیں۔ البتہ مزید فیہ کے بعض ابواب (افعال، تفعیل اور استفعال)سے افعال کے کچھ صیغے ۶ جگہ اور مختلف مشتقات (اسماء و مصادر وغیرہ) تو بکثرت (۱۵۰ سے زائد مقامات پر) وارد ہوئے ہیں۔
لفظ ’ ’ کثیر‘‘اس مادہ سے ’’فعیل‘‘ کے وزن پر صفت مشبہ یا مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں:’’زیادہ، بکثرت، بہت زیادہ، بہت سے، بہتیرے‘‘ یہ کلمہ بھی قرآن میں کثیر الاستعمال ہے (ساٹھ سے زیادہ جگہ آیا ہے)
[وَ یَھْدِی بِہ ٖکَثِیْرًا] میں ’’ وَ‘‘ عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے۔ ’’بہ‘‘ اور ’’کثیرا‘‘پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے۔
فعل ’’یَھْدِیْ کا مادہ ’’ھ د ی‘‘اور وزن اصلی ’’یُفْعِلُ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’یَھْدِیُ‘‘ تھی جس میں آخری ’’یاء‘‘ کو ماقبل مکسور ہونے کے باعث ساکن کردیتے ہیں۔ یعنی یہ باب ضرب سے فعل مضارع کا پہلا صیغہ (واحد مذکر غائب)ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ کی بحث الفاتحہ:۶ یعنی ۱:۵:۱(۱)میں ہوچکی ہے۔نیز دیکھئے ۱:۱:۲(۶)
[وَمَا یُضِلُّ بِہ]اس عبارت میں ’’و‘‘ عاطفہ (بمعنی اور)اور ’’مَا‘‘نافیہ (بمعنی نہیں)ہے: ’’یضل بہ‘‘پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے۔ اس طرح اس ’’وما یضل بہ‘‘ کا ترجمہ ہے: وہ نہیں گمراہ کرتا، وہ غلط راستے پر نہیں ڈالتا اس کے ساتھ، اس کے ذریعے، اس کی وجہ سے‘‘
۱:۱۹:۲(۱۱) [اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ] میں ’’ اِلَّا‘‘ حرف استثناء ہے جس کے معنی’’مگر، سوائے یا صرف …ہی‘‘ہوتے ہیں ۔ ’’ اِلَّا‘‘ کے معنی و استعمال پر البقرہ :۹ یعنی ۱:۸:۲(۳)میں بات گزر چکی ہے۔
’’الفاسقین‘‘ (باملاء معتاد)کا مادہ ’’ف س ق‘‘اور وزن ’’(لام تعریف نکال کر) ’’فاعلین‘‘ ہے یعنی یہ لفظ ’’فاسقٌ‘‘ کی جمع مذکر سالم (کی منصوب صورت) ہے۔
اس مادہ (فسق)سے فعل ثلاثی مجرد ’’فسُق فسَق یفسُق یفسِق فِسْقًا و فُسُو قًا‘‘(ابواب نصر، ضر ب اور کرم)سے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن کریم میں یہ صرف باب نصر سے ہی استعمال ہوا ہے۔ اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’کسی چیز کا دوسری چیز سے برائی اور خرابی کے ساتھ باہر نکل آنا‘‘(مد القاموس) زیادہ تر یہ ’’کسی پھل) خصوصا تازہ پکیّ ہوئی کھجور) کا اپنے چھلکے سے‘‘یا کسی جانور (خصوصاً چوہے کا)اپنے سوراخ سےـــ باہر نکلنے کے معنی دیتا ہے۔ بلکہ ’’چوہیا‘‘ کو عربی میں ’’فُوَیْسِقۃ‘‘ (تصغیرِ فاسقہ) اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنے سوراخ سے باہر نکل کر نقصان پہنچاتی ہے ـــ