اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۰۲ اور ۱۰۳

۲ :۶۲    وَ اتَّبَعُوۡا مَا تَتۡلُوا الشَّیٰطِیۡنُ عَلٰی مُلۡکِ سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ مَا کَفَرَ سُلَیۡمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ کَفَرُوۡا یُعَلِّمُوۡنَ النَّاسَ السِّحۡرَ ٭ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَی الۡمَلَکَیۡنِ بِبَابِلَ ہَارُوۡتَ وَ مَارُوۡتَ ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنۡ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوۡلَاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَۃٌ فَلَا تَکۡفُرۡ ؕ فَیَتَعَلَّمُوۡنَ مِنۡہُمَا مَا یُفَرِّقُوۡنَ بِہٖ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ زَوۡجِہٖ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِضَآرِّیۡنَ بِہٖ مِنۡ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ یَتَعَلَّمُوۡنَ مَا یَضُرُّہُمۡ وَ لَا یَنۡفَعُہُمۡ ؕ وَ لَقَدۡ عَلِمُوۡا لَمَنِ اشۡتَرٰىہُ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ ۟ؕ وَ لَبِئۡسَ مَا شَرَوۡا بِہٖۤ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَمَثُوۡبَۃٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ خَیۡرٌ ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۰۳﴾٪   

 

۱:۶۲:۲        اللغۃ

[   وَ اتَّبَعُوۡا مَا تَتۡلُوا الشَّیٰطِیۡنُ عَلٰی مُلۡکِ سُلَیۡمٰنَ ۚ ]

(۱)  ’’وَاتَّبَعُوا‘‘ (اور انہوں نے پیروی کی/وہ پیچھے لگ گئے) ۔ اس میں ابتدائی ’’و‘‘تو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے اور ’’اِتَّبَعُوا‘‘ کا مادہ ’’ت ب ع‘‘ اور وزن ’’اِفْتَعَلُوا‘‘ ہے۔ اِس مادہ سے فعل مجرد (تبِع یتبَع=پیچھے چلنا، پیرو ہونا) کے باب، معنی اور استعمال وغیرہ پر البقرہ:۳۸[۱:۲۷:۲ (۳)] میں بات ہوئی تھی۔

زیر مطالعہ لفظ (اِتَّبَعُوا) اِسی مادہ سے بابِ افتعال کا صیغہ ماضی معروف (جمع مذکر غائب) ہے۔ باب افتعال کے اس فعل ’’اِتَّبَعَ. . . . . یَتَّبِعُ اِتِّبَا عًا‘‘ کے معنی ہیں ’’. . . . . کی پیروی کرنا، . . . . . کے پیچھے لگ لینا، . . . . . کے پیچھے ہولینا، . . . . .کے پیچھے لگ جانا‘‘ وغیرہ۔ یہ فعل متعدی ہے اور (اپنے فعل مجرد کی طرح) اس کا مفعول بھی ساتھ ہی بنفسہٖ آتا ہے اور عموماً مذکور ہوتا ہے (یعنی محذوف نہیں ہوتا)۔ قرآنِ کریم میں اس باب (افتعال) سے اس فعل کے مختلف صیغے ۱۳۶ جگہ آئے ہیں اور صرف ایک جگہ (البقرہ:۱۶۶) میں مفعول غیر مذکور (محذوف) ہے۔ اس کے علاوہ اس سے اسم مفعول کا ایک ہی صیغہ (جمع مذکر سالم) دو جگہ آیا ہے۔

(۲) ’’مَا‘‘ (اس چیز کی جو کہ، اس کی جو) ــ ’’ مَا ‘‘ موصولہ کے لیے دیکھئے [۱:۲:۲ (۵)]

(۳) ’’ تَتْلُو ‘‘ (پڑھتی ہے/ پڑھتے ہیں)۔ مجرد فعل کے اس صیغے (جس کے ’’رسم‘‘ کی بحث آگے آئے گی) کا مادہ ’’ت ل و ‘‘ ہے اور وزن ’’ تَفْعُلُ ‘‘ ہے۔ اس کے فعل مجرد (تَلَا یَتْلُو یعنی تَلَوَ یَتْلُوُ = پیچھے آنا۔ تلاوت کرنا) کے معنی اور استعمال وغیرہ پر البقرہ: ۴۴[۱:۲۹:۲ (۸)] میں کلمہ ’’تَتْلُونَ ‘‘ کے ضمن میں بات ہوئی تھی  ــ یہ صیغہ (تَتْلُو) در اصل تو واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے کیونکہ آگے اس کا فاعل (شیاطین) جمع مکسر آ رہا ہے اِ س لیے اردو میں اِس کا ترجمہ بصورت مذکر ’’پڑھتے ہیں ‘‘ کیا جائے گا   ــ نیزیہ صیغہ تو مضارع کا ہے جو حال اور مستقبل کے لئے آتا ہے مگر زیر مطالعہ عبارت میں یہ یہودیوں کی (ماضی اور حال کی) حالت بیان کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے اور اس سے پہلے ’’اتَّبَعُوا‘‘ کا صیغہ ماضی بھی آیا ہے، لہذا یہاں یہ ’’ تَتْلُو‘‘ ایک طرح سے ’’کَانَتْ تَتْلُو‘‘ کے مفہوم میں ہے اِس لئے اِس کا ترجمہ بصیغہ ماضی استمراری ’’پڑھا کرتے تے، پڑھتے تھے‘‘ کرنا موزوں ہے۔ بعض نے ’’پڑھنے پڑھانے‘‘ کے مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے اِس کا ترجمہ ’’چرچا کرتے تھے‘‘ کیا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں