اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ
  • یہ فعل (نسِی ینسی)متعدی ہے تاہم کئی دفعہ اس کا مفعول محذوف (غیر مذکور)ہوتا ہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے (مثلاً خدا یا آخرت) ــ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے ماضی مضارع وغیرہ کے مختلف صیغے ۳۴ جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے قریباً ۸ جگہ یہ فعل مفعول کے ذکر کے بغیر آیا ہے۔ مجرد کے علاوہ اس سے بابِ افعال کے کچھ صیغے بھی (۷ جگہ)وارد ہوئے ہیں۔ اور ’’امراَۃ ‘‘ کی جمع مکسر ’’نِسوۃٌ‘‘ اور ’’نِسائٌ‘‘ کا تعلق بھی اسی مادے (واوی اللام) سے ہے۔ اس طرح قرآن کریم میں اس مادہ سے مشتقات کی کلی تعداد ساٹھ سے زائد ہے۔

[وَاَنْتُمْ] کی ’’وَ‘‘ یہاں حالیہ ہے اس لیے اکثر نے یہاں اس کا ترجمہ ’’حالانکہ‘‘سے ہی کیا ہے اگرچہ بعض نے صرف ’’اور‘‘سے کام چلا لیا ہے اور ’’انتم‘‘ تو ضمیر مرفوع منفصل بمعنی ’’تم‘‘ہے۔ بعض مترجمین نے اس کے بعد آنے والے فعل مضارع (تتلون)کے صیغہ مخاطب ہونے کی بنا ءپر اس کا ترجمہ ہی اس طرح کیا ہے کہ ’’تم‘‘ کا الگ ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی جیسے ’’پڑھتے ہو‘‘ میں خودبخود ’’تم‘‘ کامفہوم آجاتا ہے۔

۱:۲۹:۲(۸)     [تَتْلُوْنَ] کا مادہ ’’ت ل و‘‘اور وزن اصلی ’’تَفْعُلُوْنَ‘‘ہے جس کی اصلی شکل ’’تَتْلُوُوْنَ‘‘تھی۔ جس میں ’’ناقص کے واو الجمع والے قاعدے (طریق تکلم)کے مطابق ’’(جس کا ابھی اوپر ’’تَنْسون‘‘کے ضمن میں[۱:۲۹:۲(۷)]بھی ذکر ہوا ہے۔ لام کلمہ والی ’’و‘‘گر جاتی ہے۔ اور ماقبل کا ضمہ (ــــُـــــ) برقرار رہتا ہے اور اس طرح لفظ بصورت ’’تَتْلُون‘‘ استعمال ہوتا ہے۔

  • اس ثلاثی مادہ (ت ل و) سے فعل مجرد مختلف ابواب سے اور مختلف مصادر کے ساتھ متعدد (بلکہ بعض دفعہ متضاد) معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جن سب میں بنیادی معنی ’’پیچھے پیچھے آنا‘‘ کا ہوتا ہے مثلاً (۱) ’’ تلا یتلُو (تَلَوَ یتلُوُتُلُوّاً‘‘ (نصر سے) کے معنی ’’اَتَّبَع‘‘ کے ہیں یعنی پیچھے چلنا یا پیروی کرنا اور (۲) تلَی یَتْلِیْ (تلوَ یتلِوُتَلْیًا (ضرب سے) کے معنی بھی یہی (پیچھے پیچھے آنا یا چلنا)ہیں  ــ اور (۳) ’’تَلِی یتلی(تِلوَیَتْلَوْا)تَلًی ‘‘(سمع سے)کے معنی ہیں "پیچھے رہ جانا۔باقی رہ جانا۔"اور(۴):تلاَ یتلُوا تِلاوۃً"(نصر سے)کے معنی ’’پڑھنا‘‘ ہیں۔ اور یہ زیادہ تر قرآن مجید کے پڑھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ [1] اس لیے ’’تلاوۃ‘‘ ’’قراء ۃ‘‘سے زیادہ خالص ہے۔ ہر تلاوۃ قراء ۃ ہے مگر ہر قراء ۃ تلاوۃ نہیں ہوتی (اُردو فارسی میں یہ دونوں لفظ لمبی ’’ت‘‘سے لکھے کا رواج ہوگیا ہے یعنی تلاوت اور قراء ت)۔ بعض نے تلاوت کے معنی بآواز بلند پڑھنا کہ پاس والے کو سنائی دے اور قراءت کے معنی مطلقاً پڑھنا (بآواز بلند یا خاموشی سے) بیان کیے ہیں اس طرح بھی ہر تلاوت قراء ت مگر ہر قراء ت تلاوت نہیں ہوگی۔
  • تلاوت میں بنیادی مفہوم وہی ’’پیچھے چلنا‘‘ کا ہے جو کبھی جسمانی طور پر ’’پیچھے چلنا‘‘کبھی ذہنی طور پر پیچھے چلنا اور کبھی عملی طور پر ’’پیچھے چلنا‘‘کے لیے استعمال ہوتا ہے۔[2] اور تلاوتِ قرآن میں [خصوصاً وہ جسے قرآن کریم نے ’’ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ ‘‘ (البقرہ:۱۲۱) کہا ہے] یہ تینوں مدارجِِ تلاوت مراد ہوتے ہیں۔ نظر اور زبان الفاظ کے پیچھے لگے ہوتے ہیں۔ عقل یا دماغ معانی  کے فہم کے پیچھے لگے ہوتے ہیں۔ اور قلب یعنی دل اس عبارت سے حاصل ہونے والی نصیحت یا حکم کے پیچھے لگا ہوتا ہے۔ جس کے پیچھے ارادہ اور عمل آتا ہے۔

______________________________________

 [1] القاموس (للفیروز آبادی) نیز المفردات (راغب)

[2] (المفردات راغب)

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں