اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۹

    ۲:۱۴ اَوۡ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیۡہِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعۡدٌ وَّ بَرۡقٌ ۚ یَجۡعَلُوۡنَ اَصَابِعَہُمۡ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اللّٰہُ مُحِیۡطٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۹﴾  

۱:۱۴:۲     اللغۃ

 ۱:۱۴:۲(۱)    [اَوْ] حرف عطف ہے جو عموما اردو کے "یا"اور انگریزی کے"OR"کے معنی دیتا ہے۔استعمال کے لحاظ سے عام طور پر تو یہ ’’دوچیزوں میں شک‘‘ یا ’’ابہام‘‘(بات کو واضح نہ ہونا) یا تخیر (چننے کا اختیار)کے لیے آتا ہے۔ [جیسے اردو میں کہیں ’’وہ آج یا کل آئے گا‘‘ تو ’’یا ‘‘ شکل یا ابہام کو ظاہر کرتا ہے مگر ’’یہ کتاب لے لو‘‘یا ’’وہ‘‘ میں ’’یا‘‘ تخیر کے معنی دے رہا ہے]۔ اور کبھی کبھی یہ (اَوْ)  بلکہ، اور’’ تاوقتیکہ‘‘ یعنی ’’جب تک کہ‘‘کے معنی بھی دیتا ہے اور اس آخری معنی کے لحاظ سے یہ (اَوْ) بعد میں آنے والے فعل مضارع کو (’’اَنْ‘‘مقدرہ کی بنا پر)نصب بھی دیتا ہے۔ اس کے استعمال کی یہ مختلف مثالیں قرآن کریم میں ہمارے سامنے آئیں گی اور یہاں ’’اَوْ‘‘  تخییر کے لیے بھی ہوسکتا ہے اور شک ابہام کے لیے بھی۔ یعنی پہلی مثال بھی ممکن ہے اور دوسری بھی جو سمجھ لو۔ایک مثال اوپر۱۳:۲ میں گزری دوسری اب  بیان ہو رہی ہے۔

۱:۱۴:۲(۲)     [كَصَيِّبٍ] میں ’’ک‘‘ حرف الجرّ ہے جو یہاں تشبیہ کے معنوں کے لیے آیا ہے۔ ’’ كَ ‘‘ کے مختلف معنی اور استعمال پر اس سے پہلے البقرہ:۱۷ [۱:۱۳:۲(۲)]میں مفصل بحث ہوچکی ہے۔

        لفظ ’’ صَيِّبٍ ‘‘ (جو یہاں مجرور بالجر ہے) کا مادہ ’’ص و ب‘‘ اور وزن اصلی ’’فَیْعِلٌ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’صَیْوِبٌ‘‘تھی۔ جس میں یائے ساکنہ کے بعد آنے والی ’’و‘‘ کو ’’ی‘‘ میں تبدیل کرکے مدغم کردیا جاتا ہے۔ اور یوں یہ لفظ ’’ صَيِّب ‘‘ کی صورت میں لکھا اور بولا جاتا ہے۔ البتہ کبھی کبھار یہ لفظ اپنی اصلی شکل ’’صَوْیِبٌ‘‘  میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ بعض نحویوں کے نزدیک اصلی شکل ’’ صَوْیِبٌ‘‘ بروزن ’’فَعْیِلٌ‘‘ہے۔ مگر یہ اس لیے درست نہیں کہ اس صورت میں (صَوْیِبٌ) تو تعلیل کے بعد ’’صَوِیْبٌ‘‘ ہوجانا چاہئے۔ [1]

  • اس مادہ سے (صوب)سے فعل ثلاثی مجرد ’’صاب یصُوب صَوْبًا‘‘(باب نصر سے)آتا ہے۔ یہ فعل لازم اور متعددی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔اور اس کے معانی میں ’’اترنا، قصدکرنا، پڑنا، برسنا، جالگنا، انڈیلا اور بہانا‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کا کوئی صیغہ کسی معنی میں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس (مادہ) سے باب ِافعال کے مشتقات (اسماء و افعال) بکثرت (۷۵ کے قریب)آئے ہیں۔ ثلاثی مجرد سے تو صرف دو جامدماخوذ لفظ آئے ہیں ایک یہی زیر مطالعہ لفظ ’’صَیِّبٌ‘‘اور دوسرا ’’صَوَاب‘‘ (النبأ:۳۸)۔ جس کا ذکر اپنی جگہ آئے گا۔

_____________________________________

[1]   دیکھئے ابن الانباری (البیان) ج۱ص۶۱ـــ نیز عکبری (التبیان) ج۱ ص۳۵۔

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں