اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ
  • لفظ ’’ رَسُول‘‘ (بصیغۂ واحد) معرفہ نکرہ مفرد مرکب صورتوں میں قرآن کریم کے اندر ۹۶ جگہ آیا ہے اور اس کی جمع مکسر ’’رُسُل‘‘ ( جو اس وقت زیر مطالعہ ہے) تو اسی طرح (یعنی معرفہ نکرہ اور مفرد مرکب صورتوں میں) تین سو مقامات پر وارد ہوا ہے۔ اور یہ دونوں لفظ (رَسول اور رُسُل) اپنے اصل لغوی معنی میں بھی استعمال ہوئے ہیں اور اپنے اصطلاحی معنی کے ساتھ بھی۔ کسی جگہ ان کے معنئِ مراد کا تعین بڑی سمجھداری کا کام ہے۔ جس میں عبارت کے سیاق و سباق اور مہارتِ زبان کے علاوہ عقیدہ اور نیت کی درستی کو بڑا دخل ہے۔ بلکہ معروف اصطلاح ہونے کے باعث اردو میں اس کا ترجمہ ہی ’’رسول‘‘ اور رسولوں‘‘ سے کرلیا جاتا ہے اور بعض دفعہ ’’پیغمبر‘‘ (جو فارسی لفظ ہے اور پیغام بر ہی کی دوسری شکل ہے) بھی استعمال کرلیا جاتا ہے ۔ البتہ جہاں اپنے لغوی معنی میں آیا ہے وہاں اس کا ترجمہ ’’قاصد‘‘ ہی کرلیا جاتا ہے۔
  • زیر مطالعہ عبارت میں ’’الرسل‘‘ (رسولوں) اصطلاحی معنی میں آیا ہے۔ یوں اس پوری عبارت ’’ وَقَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ ‘‘ کا لفظی ترجمہ بنا: ’’اور ہم پیچھے پیچھے لائے اس کے بعد پیغمبروں کو‘‘۔ پرانی اردو میں ترجمہ ’’ہم پچھاڑی لائے‘‘ بھی کیا گیا ہے، جس کی زیادہ با محاورہ شکل یہ ہے : ’’ہم نے اس کے بعد پے در پے پیغمبر بھیجے/ ہم یکے بعد دیگرے اس کے بعد پیغمبر بھیجتے رہے‘‘۔ چونکہ عبارت میں ’’ مِنْۢ بَعْدِهٖ ‘‘ کی ضمیر مجرور حضرت موسٰیؑ کے لیے ہے جن کا اوپر آیت کی ابتداء میں ذکر آیا ہے اس لیے احتراماً اس (مِنْۢ بَعْدِهٖ ) کا ترجمہ ’’ان کے بعد‘‘ بھی کیا گیا ہے جس میں ’’ان‘‘ جمع کے لیے نہیں بلکہ تعظیم کے لیے ہے، جیسے ’’ آتینا‘‘ اور ’’قَفَّینا‘‘میں ضمیر الفاعلین جمع کے لیے نہیں بلکہ تعظیم کے لیے ہے۔ ’’من بعدہ‘‘ پر مزید بات الاعراب میں ہوگی۔

۱:۵۳:۲ (۲)     [وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ]عبارت میں کل چھ کلمات ہیں جن میں دو تو اسم علم ہیں، باقی کلمات بلحاظ ’’مادہ‘‘ تو پہلے گزر چکے ہیں۔ البتہ اسی مذکور مادہ سے ماخوذ یا مشتق لفظ نیا آیا ہے۔ ذیل میں ہر ایک کلمہ کا ترجمہ (مع مادہ، وزن اور گزشتہ حوالہ) لکھا جاتا ہے۔

(۱)  ’’وَ‘‘ یہاں عاطفہ بمعنئ ’’اور‘‘ ہے۔ دیکھئے ۱:۴:۱ (۳) اور ۱:۷:۲ (۱)

(۲) ’’ آتَیْنَا ‘‘(اس میں ابتدائی ہمزہ کا ضبط ( آ ) عام املائی ضبط ہے، قرآنی ضبط آگے بیان ہوگا) کا مادہ ’’ا ت ی‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلْنَا‘‘ ہے جو بابِ افعال کے فعل ’’ آتی یُؤتی ایتاءً= (دینا)‘‘ سے فعل ماضی کا صیغہ جمع متکلم ہے۔ بابِ افعال کے اس فعل کے معنی اور طریقِ استعمال کے لیے دیکھئے البقرہ: ۴۳ [۱:۲۹:۲ (۳)]

(۳) ’’عیسٰی‘‘: عجمی یعنی غیر عربی لفظ ہے۔ جس کی اصل سریانی زبان کا لفظ ’’ایشوع‘‘ ہے۔ یہ ایک مشہور جلیل القدر پیغمبر کا اسم علم ہے۔ اس کو ’’ ع ی س‘‘ مادہ سے ماخوذ سمجھ کر اس کے مفہوم (سرخ و سفید ہونا) کو چپکانے کی کوشش کرنا (جیسا کہ بعض نے کیا ہے) تکلّفِ محض ہے۔

(۴) ’’ابنَ‘‘ (جس کا ہمزۃ الوصل یہاں تلفظ سے ساقط ہوجاتا ہے) کا مادہ ’’ب ن ی‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلٌ‘‘ ہے، یعنی اس کی اصلی شکل ’’ بَنَیٌ ‘‘ (یا بقول بعض ’’ بَنَوٌ‘‘ ہے۔ دیکھئے القاموس)۔ اس مادہ سے فعل مجرد اور لفظ ’’ابن‘‘ میں ہونے والی تعلیل وغیرہ کے لیے دیکھئے البقرہ:۴۰ [۱:۲۸:۲ (۱)] کے ’’یٰبنی‘‘ میں۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں