- یہ لفظ (حجارَة) جو معرفہ ونکرہ مختلف صورتوں میں قرآن کریم کے اندر دس جگہ وارد ہوا ہے۔ جمع کا صیغہ ہے۔ اس کا واحد ’’حَجَرٌ‘‘ہے جس کے معنی ہیں ’’پتھر‘‘ ـ اور یہ(صیغہ واحد)بھی معرف باللام ہوکر قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے۔ لفظ ’’حَجَرٌ‘‘ کی جمع مکسر ’’حِجَارۃٌ‘‘ کے علاوہ ’’اَحْجَار حِجارٌ‘‘ اور’’ اَحْجُر‘‘ وغیرہ بھی استعمال ہوتی ہیں تاہم قرآن کریم میں ’’حِجَارۃ‘‘ کے علاوہ کوئی دوسری جمع مستعمل نہیں ہوتی ـــ
۱:۱۷:۲(۱۴) [اُعِدَّتْ] کا مادہ ’’ع د د‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعِلَتْ‘‘ ہے اس کی اصلی شکل ’’اُعْدِدَتْ‘‘ تھی۔ جس میں فعل مضاعف کے قاعدۂِ ادغام کے مطابق پہلی ’’دِ‘‘ کی کسرہ عین ساکنہ (عْ) کو دے کر ہر دو دال (دْدَ) کو مدغم (دَّ) کر دیا گیا یعنی اُعْدِدَت=اُعِدْدَتْ=اُعِدَّتْ۔
- اس مادہ ( عدد) سے فعل ثلاثی مجرد ’’عَدَّ …یعُدُّ عدًّا‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے دو(۲)معنی ہیں (۱)… کو گننا، … شمار کرنا، (۲) … کو …سمجھنا، خیال کرنا‘‘ یہ فعل ہمیشہ متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے مثلاً عَدَّهُمْ (مریم: ۹۴) اس نے ان کو گن لیا ـــ دوسرے معنی (خیال کرنا) کے لیے یہ ’’حَسِب" اور ’’ظنَّ‘‘ کے ہی معنوں میں اور ان کی طرح دو مفعول کے ساتھ آتا ہے ۔ جیسے ’’عَدّ زیدًا عالمًا‘‘ (اس نے زید کو عالم سمجھایا علماء میں شمار کیا)۔ قرآن ِ کریم میں اس دوسرے استعمال کی صرف ایک مثال ہے سورۃ ص۔ ۶۲ میں۔
اس فعل مجرد کے مختلف صیغے قرآن کریم میں سات جگہ وارد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی مادہ سے جامد اور مشتق اسماء کے متعدد صیغے ۲۸ مقامات پر آئے ہیں۔
- زیر مطالعہ لفظ ’’ اُعِدّتْ ‘‘ اس مادہ (عدد) سے باب ِاِفعال کے فعل ماضی مجہول کا صیغہ واحد مونث غائب ہے۔ اس باب (اِفعال) سے فعل ’’اَعَدّ … یُعِدُّ ‘‘ (دراصل اَعْدَد یُعْدِدُ) اِعْدَادًا‘‘بھی ہمیشہ متعدی اور بغیر صلہ کے استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کے معنی ہیں’’…کو تیار کرنا یا تیار رکھنا‘‘اس طرح صیغہ’ ’ اُعِدَّتْ ‘‘ کا لفظی ترجمہ ہوگا۔ ’’ وہ تیار کی گئی یا تیار رکھی گئی‘‘ ـــ اسی معنی کو مختلف مترجمین نے ’’تیار ہے، تیار کی ہوئی ہے، تیار رکھی ہے، تیار ہوئی رکھی ہے یا تیار کی گئی ہے‘‘ کی صورت میں ظاہر کیا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان مختلف تراجم میں فعل مجہول کے مفہوم کو کس کس طرح شامل ترجمہ کیا گیا ہے۔ اور اس مقصد کے لیے الفاظ کا انتخاب کس طرح کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ ’’ اُعِدَّتْ ‘‘کے فعل ماضی مطلق کا ترجمہ ماضی قریب کے ساتھ’’(ہے لگا کر) کرنے کی وجہ بعض تفسیری تقاضے بھی ہیں۔
قرآن کریم میں اس مادہ(عدد) سے باب اِفعال کے صرف فعل ہی کے مختلف صیغے بیس (۲۰)جگہ آئے ہیں۔
[لِلْكٰفِرِيْنَ] میں سے ابتدائی لام الجر (لِ) اور لام تعریف (ا ل) ـــ (جن کو بصورت ’’لِلْ‘‘ لکھا جاتا ہے) ـــ کو نکال کر باقی لفظ ’’کافرین‘‘ نکلتا ہے۔ جس کا مادہ ’’ک ف ر‘‘ اور وزن ’’فاعِلینَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ، اس کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۶ یعنی ۱:۵:۲(۱) اور البقرہ:۱۹ یعنی ۱:۱۴:۲(۱۲)میں بات ہوچکی ہے ـــ اسی فعل مجرد (کفَر یکفُر کُفْرًا) سے اسم الفاعل ’’کافر‘‘ کی جمع مذکر سالم ’’کافرون یا کافرین‘‘ہے ـــ کافر کے لفظی معنی تو ’’انکار کرنے والا‘‘ہیں۔ تاہم اصطلاحاً اس سے مراد توحید، رسالت یا آخرت (وغیرہ) کا منکر ہے۔ اور چونکہ یہ لفظ اپنے اصطلاحی مفہوم کے ساتھ اردو میں متعارف ہے۔ اس لیے ’’ للکافرین‘‘ کا ترجمہ ’’کافروں کے لیے‘‘ کر لیا جاتا ہے۔