اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾

۱:۳:۱      اللغۃ

            [الرَّحْمٰنِ]اور [الرَّحِيْمِ] کی لغوی بحث پہلے ’’بسم اللہ ‘‘ میں گزر چکی ہے۔ (دیکھئے۱:۱:۱)

۱:۳:۱(۱)     [مٰلِکِ] (جو عام عربی املاء میں ’’مالک‘‘ لکھا جاتا ہے) کا مادہ ’’م ل ک‘‘ اور وزن ’’فَاعِلٌ‘‘ ہے۔

            اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد مَلَک … یَمْلِکُ مُلْکًا (باب ضرب سے) ہمیشہ متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے۔ یعنی مَلَکہٗ کہتے ہیں اور اس کے دو معنی ہیں: (۱)…کا مالک ہونا ، (۲)…پر حکمران ہونا‘‘۔ یہاں (آیت زیر مطالعہ میں) مالک کی اضافت کسی چیز (مثلاً مال وغیرہ) کی بجائے یَوْم (وقت۔ دن ۔ زمانہ) کی طرف ہے، اس لئے مناسب ترجمہ اس کا یہاں ’’حکمران یا حاکم‘‘ (Sovereign) ہے۔بعض نے دونوں معنوں کو سامنے رکھتے ہوئے ترجمہ ’’مالک‘‘ ہی رہنے دیا ہے۔

۱: ۱:۳ (۲)     [يَوْم]  کا مادہ ’’ ی و م‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد عربی میں استعمال ہی نہیں ہوتا۔ مزید فیہ میں سے صرف باب مفاعلہ سے (یومیہ اجرت پر کام کرنا یا کرانا کے معنی میں) آتا ہے۔مگر اس کا استعمال بھی شاذ ہے۔ اور قرآن کریم میں بہرحال اس مادہ سے کوئی فعل استعمال نہیں ہوا ہے۔

            J.Penriceنے اپنی انگریزی ’’ڈکشنری آف قرآن‘‘ میں اس مادہ سے ماضی مضارع ’’یَوِمَ یَوْیَمُ‘‘ لکھ کر اس کے اصلی معنی ’’ایک دن کے لئے وجود میں آنا‘‘ بیان کئے ہیں۔ اور غالباً اس کی تقلید میں ایک اردو ’’غریب القرآن فی لغات القرآن‘ ‘  کے مصنف نے بھی مادہ ’’ی وم‘‘ کے تحت یہی ماضی مضارع لکھ ڈالا ہے اگرچہ اس کے معنی نہیں لکھے۔ اس فعل (ثلاثی مجرد) اور اس کے ان معنوں کی کوئی اصل کسی قابلِ ذکر عربی معجم (ڈکشنری) میں مادہ ’’ی و م‘‘کے بیان میں کہیں نہیں ملتی۔ ویسے بھی بیان کردہ فعل مضارع (یَویَم) مادہ ’’یوم‘‘ سے نہیں بلکہ ’’ویمٌ‘‘ سے (باب سَمِع سے) ہونا چاہئے۔ ’’یوم‘‘ سے تو اسے ’’یَیْوَم‘‘ (سمع سے) بننا چاہئے تھا۔ مگر اس مادہ (و ی م)سے بھی عربی معاجم (ڈکشنریوں) میں کوئی فعل بیان نہیں ہوا۔

            لفظ ’’یوم‘‘کے معنی ’’دن‘‘ ہیں۔ اور یہ لفظ ’’ایک دن رات‘‘ یا ’’صرف دن‘‘ یا ’’صرف رات‘‘ یا مطلقاً ’’موجودہ وقت‘‘ کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اسی سے ’’الیوم‘‘ بمعنی ’’آج‘‘ آتا ہے۔ کبھی یہ لفظ (یوم) ’’دور‘‘ اور ’’جنگ‘‘ (فلاں جنگ کا دن) کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً یوم بدر (بدر کی جنگ) یوم کی جمع ایّام ہے (جو دراصل ’’اَیْوَام‘‘ بروزن ’’اَفْعَال‘‘ ہے)اور یہ بھی قرآن کریم میں بکثرت آیا ہے  ـ  اس لفظ (یوم) کے مختلف استعمالات اور معانی موقع استعمال کے لحاظ سے سامنے آتے جائیں گے ـــ خیال رہے کہ لفظ ’’یوم‘‘ مفرد اور مرکب مختلف صورتوں میں قرآن کریم کے اندر چار سو سے زائد جگہ پر آیا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں