اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر  ۷۴

  ۲:۴۶    ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالۡحِجَارَۃِ اَوۡ اَشَدُّ قَسۡوَۃً ؕ وَ اِنَّ مِنَ الۡحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنۡہُ الۡاَنۡہٰرُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخۡرُجُ مِنۡہُ الۡمَآءُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَہۡبِطُ مِنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕوَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۷۴﴾

۲: ۴۶:  ۱     اللغۃ

۱:۴۶:۲ (۱)     [ثُمَّ قَسَتْ] ’’ثُمَّ‘‘ کے معنی و استعمال پر البقرہ:۲۸ [ ۱:۲۰:۲ (۴)] میں بات ہوئی تھی۔ اس کا اردو ترجمہ تو ’’پھر/ اس کے بعد‘‘ ہے یہاں سیاقِ عبارت (قصہ) کی بنا پر اردو محاورہ میں اس کا موزوں ترجمہ ’’پھر بھی‘‘ بنتا ہے۔

’’قَسَتْ‘‘ کا مادہ ’’ق س و‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلَتْ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’قَسَوَتْ‘‘ تھی۔ مگر ماقبل مفتوح اور مابعدصحیح حرفِ ساکن والی متحرک واو (وَ) ساقط ہو جاتی ہے۔ یعنی ’’قَسَوَتْقَسَاتُقَسَتْ‘‘۔

  • اس مادہ سے فعل مجرد ’’قَسا یَقسُو قَسْوۃً‘‘ (نصر سے) کے بنیادی معنی ہیں: ’’نرمی سے خالی ہونا اور سختی میں بڑھ جانا‘‘۔ یہ فعل لازم ہی استعمال ہوتا ہے اور زیادہ تر اس کا فاعل ’’القلب‘‘ (دل) آتا ہے مثلاً کہتے ہیں: ’’قسا قلبُہ‘‘ (اس کا دل سخت ہوگیا)۔ اگر اس کا فاعل ’’الدرھم‘‘ (چاندی کا ایک سکہ) ہو تو اس کے معنی ’’کھوٹا ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں: ’’قسا الدرھمُ‘‘ (درہم کھوٹا ہوگیا یعنی اس کی چاندی ملاوٹ کے باعث سخت ہوگئی اور اس میں خالص چاندی والی نرمی نہ رہی) اور اگر اس کا فاعل ’’اللیل‘‘ (رات) ہو تو اس کے معنی ’’سخت تاریک ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ مثلاً کہیں گے: ’’قَسا اللیلُ‘‘ (رات سخت اندھیری ہوگئی)۔

اس فعل سے اسم صفت ’’فاعل‘‘ اور ’’فعیل‘‘ دونوں وزنوں پر آتا ہے یعنی ’’قاسیٍ‘‘ بھی اور ’’قَسِیٌّ‘‘ بھی۔ مثلاً کہتے ہیں ’’قلبٌ قاسیٍ‘‘ (سخت دل) اور ’’درھم قَسِیٌّ‘‘ (کھوٹا درہم)۔ عربی زبان میں اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض افعال بھی بعض معانی کے لیے آتے ہیں۔

  • تاہم قرآن کریم میں اس فعل کا استعمال صرف مجرّد سے آیا ہے اور وہ بھی صرف قلب (دل) کے لیے ہوا ہے۔ اس سے فعل ماضی کا یہی ایک صیغہ (قَسَتْ) تین جگہ اور بصورت اسم الفاعل مؤنث (القاسِیۃ) بھی تین ہی جگہ آیا ہے۔ اور ایک جگہ مصدر ’’قَسْوَۃ‘‘ آیا ہے۔
  • زیر مطالعہ لفظ (قَسَتْ) اس فعل مجرد سے فعل ماضی صیغہ واحد مؤنث غائب ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ’’وہ سخت ہوگئی‘‘۔ یہاں چونکہ اس کا فاعل (جیسا کہ آگے آرہا ہے) ’’قلوبکم‘‘ (تمہارے دل) ہے اس لیے اردو میں بامحاورہ ترجمہ ’’سخت ہوگئے‘‘ (تمہارے دل) سے کیا گیا ہے۔ البتہ بعض مترجمین نے چونکہ سیاق عبارت اور بیان قصہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’ثُمَّ‘‘ کا ترجمہ ’’پھر بھی‘‘ کیا تو فعل ’’قَسَتْ‘‘ کا ترجمہ ’’سخت رہے/سخت ہی رہے‘‘ سے کیا ہے۔

[قُلُوْبُکُمْ] میں آخری ضمیر مجرور ’’کُمْ‘‘ (بمعنی تمہارے) ہے اور اس سے پہلا لفظ ’’قُلُوب‘‘ بروزن ’’فُعُوْلٌ‘‘ ہے جو لفظ ’’ قَلْبٌ ‘‘ بروزن ’’فَعْلٌ‘‘ کی جمع مکسر ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب و معنی کے علاوہ لفظ ’’قلوب‘‘ کے بارے میں مفصل بحث البقرہ:۷ اور ۱۰ یعنی [۱:۶:۲ (۲)] اور [۱:۸:۲ (۶) ] میں ہوچکی ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں