۱:۴۲:۲ (۴) [نَکالاً] کا مادہ ’’ن ک ل‘‘ اور وزن ’’فَعَالًا‘‘ ہے یعنی یہ منصوب ہے (وجہ اعراب میں بیان ہوگی)۔ اس مادہ سے فعل ’’نکَل ینکُل نُکُوْلاً ‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے۔ اور کبھی باب سمع سے ’’نَکِلَ ینکَل نَکَلاً‘‘ بھی آتا ہے اور یہ فعل بھی لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں (۱) ’’بزدل ہونا، پیچھے مڑجانا، پسپا ہونا‘‘ اور (۲) ’’کسی کو پیچھے دھکیل دینا، پسپا کرنا‘‘ اور عموماً اس کے ساتھ (لازم متعدی دونوں صورتوں میں) ’’عَنْ‘‘ کا صلہ لگتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’نکَل عن العدوِّ (دشمن کے سامنے سے بھاگ نکلا) یا ’’نکل عن الیمین‘‘ (وہ قسم سے پھر گیا) یا ’’نکَل فلاناً عن الشیِٔ‘‘ (اس نے فلاں کو (اس ) چیز سے پرے بھگا دیا، دور کردیا) اور کبھی یہ فعل ’’باء(بِ) کے صلہ کے ساتھ ’’کڑی سزا دینا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’نکل بِفُلانٍ‘‘ (اس نے فلاں پر آفت لاڈالی۔ یا فلاں کو (دوسروں کے لیے) عبرت بنادیا)۔ اس مادہ سے (عام عربی میں) مزید فیہ کے بعض ابواب سے بھی مختلف معنی کے لیے فعل آتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا فعل استعمال نہیں ہوا۔
- البتہ اس مادہ سے ماخوذ یہی لفظ ’’نکال‘‘ قرآن کریم میں تین جگہ آیا ہے اور ایک جگہ (المزمل:۱۲) لفظ ’’أَنْکَالٌ‘‘ (جو ’’نَکْلٌ‘‘ بمعنی ’’بیڑی‘‘ کی جمع ہے) اور ایک ہی جگہ (النساء:۸۴) لفظ ’’تَنْکِیْلُ‘‘ (جو اس باب تفعیل کا مصدر ہے) آیا ہے۔ ان پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ۔
- زیر مطالعہ لفظ ’’نکال‘‘ اس ماد ہ سے ماخوذ ایک اسم جامد ہے اور اسکے معنی ’’بندش‘‘، ’’وبال ‘‘اور ’’عبرتناک‘‘ ہیں۔ اور اسی سے اس میں دوسروں کے لیے ’’نمونۂ عبرت، باعثِ عبرت‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں یعنی جس کی حالت دیکھ کر دوسرے لوگ وہ کام کرنے سے رک جائیں اور بچیں۔ اور اسی وجہ سے بعض مترجمین نے ’’نکال‘‘ کا ترجمہ ’’بندش‘‘ اور ’’دہشت‘‘ ہی کیا ہے۔
۱:۴۲:۲ (۵) [لِّمَا بَیْنَ یَدَیْھَا] کا ابتدائی ’’لِمَا ‘‘ تو ’’لِ‘‘ (کے لیے) اور’’مَا‘‘ (جو کچھ کہ) کا مرکب ہے یعنی ’’اس کے لیے جو کہ ‘‘۔ ’’لام‘‘ (لِ) کے معنی واستعمال پر سورۃ الفاتحہ کے شروع میں [۱:۲:۱ (۴)] میں اور ’’مَا‘‘ کے لیے البقرہ ۲۶ [۱:۱۹:۲ (۳)] دیکھ لیجئے۔
’’ بَیْنَ یَدَیْھَا‘‘ بھی تین کلمات ’’ بَیْنَ، یَدَیْ‘‘ اور ’’ھَا‘‘ کا مرکب ہے جس میں آخری (ھا) تو ضمیر مجرور مونث بمعنی ’’اس کا/ کے/ کی‘‘ ہے۔
- لفظ ’’بَیْنَ‘‘ کا مادہ ’’ب ی ن‘‘ اور وزن ’’فَعْلَ‘‘ (لام کی فتحہ ( ــــــَـــــ ) کے ساتھ ہے)۔ اس مادہ سے متعدد فعل اور دیگر ماخوذ اور مشتق کلمات قرآن کریم بکثرت استعمال ہوئے ہیں۔ لہٰذا اس مادہ سے فعل مجرد پر ہم وہاں بات کریں گے جہاں اس مادہ سے کوئی فعل سامنے آئے گا (اور یہ موقع ابھی آگے البقرہ:۶۸ [۱:۴۳:۲ (۶)]میں آرہا ہے) یہاں ہم صرف لفظ ’’بَیْنَ‘‘ کے معنی و استعمال پر بات کرتے ہیں۔