- شرعی اور فقہی اصطلاح میں نماز کے اندر ایک خاص ہیئت اختیار کرنے یعنی اپنی پیشانی زمین پر رکھنے کو ’’سَجْدَۃ‘‘ کہتے ہیں۔ بلکہ نماز کے اس سجدے کے وقت ہاتھوں اور پاؤں کو بھی ایک خاص طریقے کے مطابق زمین پر رکھنےِ کی وضاحت خود نبی اکرم ﷺ کے عمل (سنت) سے ثابت ہے۔ اس طرح یہ لفظ (سجدۃ) ایک خاص شرعی اصطلاح ہے جو اسلام نے عربی زبان کو دی ہے۔
- یہ فعل (سجد یسجُد)متعدی ہے اور اس کے مفعول (جس کو سجدہ کیا جائے) پر لام (لِ) کا صلہ لگتا ہے مثلاً کہیں گے ’’سَجد الِلّٰہ‘‘ (اس نے اللہ کو سجدہ کیا)۔ ’’سجدہٗ یا سجد اللہُ‘‘ کہنا غلط ہے۔ اس سے فعل مجہول بھی اسی صلہ کے ساتھ ہی آئے گا۔ کہیں گے ’’سُجِد لہٗ‘‘ (اس کو سجدہ کیا گیا) ـ البتہ بعض دفعہ یہ مفعول محذوف (غیر مذکور)ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ فعل (سجد یسجد) ۳۵ جگہ استعمال ہوا ہے اور ان میں سے دس مقامات پر اس کا مفعول محذوف ہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے۔ جب یہ فعل نماز کے ضمن میں آئے تو اس کا ترجمہ ’’سجدہ ادا کرنا‘‘کیا جاتا ہے۔
- اس فعل کے لغوی اور اصطلاحی معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’سجدہ‘‘دو طرح کا ہوتا ہے ـ ـ(۱)’’اختیاری سجدہ‘‘جس میں ساجد (اسم فاعل)کا ارادہ اور اختیار شامل ہو جیسے ’’نماز میں (نمازی کا) سجدہ کرنا اور (۲) ’’تسخیری سجدہ‘‘ یعنی بے ارادہ و بے اختیار اطاعت ـ اور ان دوسرے معنوں میں ہی قرآن کریم میں اشجار و نباتات بلکہ جملہ مخلوق کا اللہ کو سجدہ کرنا ـ بیان ہوا ہے۔ اس کی کیفیت کو جاننا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی ضروری ـ
- زیر مطالعہ لفظ (اسجُدوا) اسی فعل مجرد (سجد یسجد)سے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس لیے بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’تم سب سجدہ میں گر جاؤ‘‘یا ’’سجدہ کرو‘‘ہی کیا ہے اگرچہ بعض نے لغوی معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’جھکو‘‘یا ’’جھک جاؤ‘‘سے بھی ترجمہ کیا ہے۔
[لِاٰدَمَ] کا ابتدائی لام (لِ) تو اس فعل ’’سجَد یسجُد‘‘ کا وہ صلہ ہے جو اس کے مفعول (جس کو سجدہ کیا جائے)سے پہلے آتا ہے۔ اور جس کا اردو ترجمہ یہاں ’’کو‘‘، ’’کے سامنے‘‘، ’’کے آگے‘‘سے کیا جاسکتا ہے ـــــ اور لفظ ’’آدم‘‘(برسم املائی)نام ہے اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں (ویسے اس کے لغوی معنی اور اشتقاق وغیرہ البقرہ:۳۱ یعنی ۱:۲۲:۲(۲)میں بیان ہوچکے ہیں) لِآدم = آدم کو / کے سامنے/ کے آگے۔
[فَسَجَدُوْا] کی ابتدائی ’’فاء (فَ)‘‘ تو عاطفہ (بمعنی ’’پس، چنانچہ‘‘)ہے۔ اور ’’سجَدُوا‘‘ کا مادہ ’’س ج د‘‘ اور وزن ’’فَعَلُوْا‘‘ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے فعل مجرد (جس کا باب معنی وغیرہ ابھی اوپر ۱:۲۴:۲(۲)میں بیان ہوئے ہیں)کا فعل ماضی معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ جس کا ترجمہ (سابقہ صیغۂ امر کی طرح) بعض نے تو ’’انہوں نے سجدہ کیا‘‘، ’’سجدہ کو پڑے‘‘، ’’سجدہ میں گر پڑے‘‘سے کیا اور اور بعض نے لغوی معنی کے لحاظ سے ’’جھک پڑے، جھکے‘‘کیا ہے۔
[اِلَّا] استثناء کا حرف ہے جس کا اردو ترجمہ ’’مگر‘‘ یا ’’سوائے …کے‘‘سے کیا جاتا ہے۔ اس کے معنی و استعمال پر ذرا مفصل بات البقرہ:۹ یعنی ۱:۸:۲(۳)میں ہوئی تھی۔ ضرورت ہو تو دیکھ لیں۔
۱:۲۴:۲(۳) [اِبْلِیْسَ] اس لفظ کے مادہ اور اشتقاق کے بارے میں بھی ائمہِ لغت کے دو قول ہیں: