اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ  البقرہ آیت نمبر ۳۴

۲۴:۲    وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۳۴﴾

۱:۲۴:۲       اللغۃ

[وَ] اس ’’واو‘‘ کا ترجمہ یہاں ’’اور‘‘ ہی مناسب ہے چاہے اسے عاطفہ سمجھیں یا مستانفہ (’’وَ‘‘کے مختلف معانی اور استعمالات پر الفاتحہ:۵ یعنی ۱:۴:۱(۳)میں ــــ  اور واوِ مستانفہ کے بارے میں ــ  نیز عاطفہ اور مستانفہ کے فرق کے بارے میں ــــ البقرہ:۸ یعنی ۱:۷:۲میں وضاحت کی جاچکی ہے۔

[اِذْ] کا ترجمہ تو ’’جب/ جب کہ‘‘ہی سے کیا جاتا ہے۔ تاہم اس کے شروع میں ’’اذکروا‘‘(یاد کرو)کے حذف کی وجہ  ـ اور ’’اذ‘‘ کے مختلف استعمالات ــــ کے بارے میں ابھی اوپر البقرہ:۳۰  یعنی ۱:۲۱:۲(۱)میں تفصیل سے بات ہوئی تھی۔

۱:۲۴:۲(۱)     [قُلْنَا] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلْنَا‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’قَوَلْنَا‘‘تھی۔ جس میں واوِ متحرکہ ماقبل مفتوح کو الف  میں بدل کر بوجہ اجتماع ساکنین (الف اور لام)  گرادیتے ہیں اور ’’اجوف‘‘ میں جب فعل ماضی میں عین کلمہ (جو یہاں ’’و‘‘ہے)  گر جاتا ہے تو فائے کلمہ کو (جو یہاں ’’ق‘‘ہے) مضارع مضموم العین (باب نصر یا کرم سے) ہونے کی صورت میں ضمہ (ـــــُـــــ) دیا جاتا ہے [باقی صورتوں میں کسرہ (ــــــِــــ) دی جاتی ہے]۔ اس طرح یہ صیغہ اب ’’قلنا‘‘ بروزن ’’فُلْنَا‘‘رہ گیا ہے اس تعلیل (یا اعلال) کو ریاضی کی زبان میں یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے: قَوَلْنَا قالْنَا قَلْنَا قُلْنَا (باب نصر کی وجہ سے ضمہ دیا گیا ہے)۔

[لِلْمَلٰئِکَۃِ] میں ابتدائی ’’لام‘‘ (لِ) تو فعل ’’قال‘‘کا صلہ ہے جو اس فعل کے ذریعے ’’مخاطب‘‘سے پہلے لگتا ہے اور جس کا اردو ترجمہ ’’سے‘‘ یا ’’کو‘‘ہوتا ہے۔ ’’ ملائکۃ ‘‘[1]کے مادہ اور اشتقاق کے بارے میں مختلف اقوال کا خلاصہ اور اختلافِ مادہ کی بناء پر ظاہر ہونے والے اختلافِ وزن (مَعافِلۃ، فَعائلِۃ یا مَفاعِلۃالبقرہ:۳۰ یعنی ۱:۲۱:۲(۲)میں بات ہوچکی ہے۔

۱:۲۴:۲(۲)[اسْجُدُوْا] کا مادہ ’’س ج د‘‘ اور وزن ’’اُفْعُلُوْا‘‘ ہے جس میں ماقبل لفظ (ملائکۃ) کے ساتھ وصل (ملنے) کی وجہ سے ابتدائی ھمزۃ الوصل تلفظ سے ساقط ہوجاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’سجَد یسجُد سُجُودًا‘‘ (باب نصر سے)  آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’عاجز اور مطیع ہونا‘‘اور ’’سر یا بدن کو کسی خاص انداز میں جھکا کر اپنی عاجزی یا اطاعت کا اظہار کرنا‘‘ہیں۔ عربی زبان میں ’’اونٹ کا وزن لادے جاتے وقت اپنی گردن یا سر جھکانے یا نیچے زمین پر رکھ دینے‘‘ کو ظاہر کرنے کے لیے  یہی فعل استعمال ہوتا ہے۔ مثلا کہتے ہیں ’’سجَد البعیرُ‘‘ یعنی ’’خفض رأسَہ‘‘(اونٹ نے سر نیچے رکھ دیا)۔

__________________________________

 [1] یہاں یہ لفظ عمداً (برائے سہولت) عام عربی املاء کے مطابق لکھا گیا ہے۔ اس کے بارے میں ہم نے اپنا اصول ’’مقدمہ‘‘ میں بیان کردیا تھا۔

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں