اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

قرآن کریم میں یہ لفظ (سماء)اور اس کی جمع ’’سماوات‘‘ معرفہ نکرہ مختلف صورتوں میں تین سو سے زیادہ دفعہ آئے ہیں۔ عربی میں لفظ ’’سماء‘‘ بیشتر مؤنث (سماعی) ہی استعمال ہوتا ہے اور اس کی جمع مؤنث سالم آنے کی وجہ یہی ہے۔ اگرچہ اس کی جمع مکسر ’’اَسْمِیَۃ، سُمِیٌّ اور سمِیً‘‘ وغیرہ بھی آتی ہے تاہم قرآن کریم میں یہ (جمع مکسر) کہیں استعمال نہیں ہوئی۔ قرآن کریم میں غالباً صرف ایک جگہ (المزمل:۱۸) یہ لفظ (سماء) مذکر بھی استعمال ہوا ہے۔ یعنی اس کی تذکیر یا تانیث دونوں جائز ہیں۔

۱:۱۶:۲(۸)      [بِنَاۗءً] کا مادہ ’’ب ن ی‘‘ اور وزن ’’فِعالٌ‘‘ہے۔ (فِراش کی طرح) اس کی اصلی شکل ’’بِنایٌ‘‘ تھی جس میں الف ممدودہ کے بعد والی ’’ی‘‘ عربوں کے تلفظ کے قاعدے کے مطابق ’’ ء‘‘ میں بدل گئی ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’بَنَی یَبْنِیْ بِناءً… و بُنْیَانًا‘‘ (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: … (مکان یا دیوار وغیرہ) کو تعمیر کرنا یا بنانا‘‘ اس فعل مجرد سے مختلف صیغے قرآن کریم میں گیارہ جگہ اور جامد و مشتق اسماء کے صیغے بھی گیارہ ہی جگہ آئے ہیں۔

لفظ ’’ بناء ‘‘ دراصل تو فعل ثلاثی مجرد کا مصدر ہے مگر یہ بمعنی اسم مفعول استعمال ہوتا ہے (مصدر اسم الفاعل اور اسم المفعول دونوں طرں استعمال ہوسکتا ہے) یعنی یہ لفظ تعمیر کردہ مکان یا عمارت اور کبھی صرف ’’چھت‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے۔

[وَاَنْزَلَ] میں ’’وَ‘‘ عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے ۔ اور ’’اَنْزَل‘‘ کا مادہ ’’ن زل ‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد (نزَل ینزِل نُزولاً=اترنا) اور اس سے بابِ اِفعال (جس سے یہ فعل ’’ اَنْزَل ‘‘ ہے) کے معنی و استعمال وغیرہ کی البقرہ:۴  یعنی ۱:۳:۲(۲)میں وضاحت ہو چکی ہے۔

ـــ یہاں اس (زیر مطالعہ )آیت میں بعض مترجمین نے ’’ اَنْزَلَ ‘‘ کا ترجمہ ’’اتارا‘‘ کی بجائے ’’برسایا‘‘ سے کیا ہے جو محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے درست ہے اگرچہ اصل لفظ سے قدرے ہٹ کر ہے۔

[مِنَ السَّمَاۗءِ] یہ ’’مِنْ‘‘ (سے) +’’السَّماء‘‘ (آسمان) سے مرکّب ہے۔ ’’مِنْ‘‘ کے معانی و استعمالات پر۱:۲:۲(۵) میں  اور لفظ ’’السماء‘‘ کے مادہ اور معنی وغیرہ پر ابھی اوپر ـــ۱:۱۶:۲(۷) میں  بات ہوچکی ہے۔

۱:۱۶:۲(۹)     [مَاءً] کا مادہ ’’م و ہ‘‘ اور وزنِ اصلی ’’فَعَلٌ‘‘ ہے اس کی اصلی شکل ’’مَوَہٌ‘‘ تھی جس میں ’’واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل گئی اور آخری ’’ہ‘‘ خلافِ قیاس ’’ء‘‘ میں  بدل گئی ہے۔‘‘ اسی لیے ’’ماءٌ‘‘ کی جمع مکسر ’’مِیاہٌ‘ اور ’’امواہٌ‘‘ آتی ہے۔ [قرآن کریم میں اس لفظ (ماء) سے جمع کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔]

        اس مادہ ( م و ہ) سے فعل ثلاثی مجرد ’’ ماہَ یمُوْہُ مَوھًا‘‘ (باب نصر سے اور دراصل ’’مَوَہَ یَمْوُہُ‘‘)اور"ماہَ یَمَاہُ مَوْھًا"(باب سمِعَ سے اور دراصل ’’مَوِہ یمْوَہُ‘‘)  آتا ہے۔ اور اس کے کئی معنی ہوتے ہیں مثلاً ’’کنویں میں پانی کا زیادہ ہونا‘‘ یا ’’کشتی میں پانی آجانا‘‘ وغیرہ۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں