اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

 

سورۃ البقرہ آیت  نمبر ۴

۳:۲   

وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾

  ۲:۳:۱ اللغۃ

            ’’وَ‘‘  ، ’’اَلَّذِیْنَ‘‘ اور ’’ یُؤْمِنُوْنَ‘‘ پر بات ہوچکی ہے۔ دیکھئے گزشتہ دو آیات (۱:۲:۲) میں

۱:۳:۲ (۱)     [بِمَا] میں باء الجر (بِ) تو فعل ’’ یُؤْمِنُوْنَ‘‘ کا صلہ ہے۔ اور ’’مَا‘‘ موصولہ ہے۔[1] بمعنی ’’جو کچھ کہ‘‘ اس طرح ’’بِمَا‘‘ کا یہاں لفظی ترجمہ ’’اس کے ساتھ جو کہ ‘‘کی بجائے اردو محاورے کے مطابق ’’اس پر جو کہ‘‘ کرنا زیادہ موزوں ہے اور اکثر مترجمین نے یہی کیا ہے۔ تاہم خیال رہے کہ عربی میں ’’ایمان لانا‘‘ کے لئے ’’آمَن عَلی…‘‘ کہنا بالکل غلط ہے۔[2]    انگریزی میں اسی ’’بِ‘‘ کا ترجمہ ’’In‘‘ کی صورت میں ہوگا یعنی ’’To believe in‘‘ یہاں withیا  at یا on   کا استعمال بالکل غلط ہوگا۔ ہر زبان کے یہ حروف جارہ یا صلات یا Prepositions یکساں استعمال نہیں ہوتے۔ عربی افعال کے ’’صلات‘‘ کا اردو ترجمہ کرتے وقت اس نکتہ کو مد نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔

۱:۳:۲ (۲)     [اُنْزِلَ] کا مادہ ’’ن ز ل‘‘او ر وزن ’’اُفْعِلَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد نزَل یَنزِل نُزُولًا (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہوتے ہیں: ’’اترنا‘‘، ’’نیچے آنا‘‘، ’’اترآنا‘‘، ’’نازل ہونا‘‘ یعنی یہ فعل ہمیشہ لازم ہوتا ہے۔ اگرچہ کبھی ـــ فعل ’’دخل‘‘کی طرح  ـ اس کا مفعول فیہ ساتھ ہی (بنفسہ) مذکور ہوتا ہے۔ اور کبھی ’’باء (بِ)‘‘ یا ’’فی‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی آتا ہے۔ مثلاً ’’نَزلَ المَکانَ و بِالمکانِ و فِی المکانِ‘‘ ’’…میں اترنا یا آنا‘‘ تاہم مؤخر الذکر استعمال (’’فی‘‘کے ساتھ) قرآن کریم میں نہیں آیا ہے۔ اس فعل (ثلاثی مجرد۔ نزل) سے مختلف صیغے قرآن کریم میں چھ (۶) جگہ آئے ہیں جن کی وضاحت اپنی اپنی جگہ ہوگی۔

’’اُنْزِلَ‘‘اس مادہ (نزل)سے باب افعال کا فعل ماضی مجہول (یعنی للمفعول) کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے یہ فعل ’’اَنزل…یُنزِل اِنزالًا‘‘ عموماً متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں ’’…کو نازل کرنا۔[3]   ’’…کو اتارنا‘‘ اردو محاورے میں فعل ’’اتارنا یا نازل ‘‘ کرنا کا فاعل تو ’’نے‘‘ کے ساتھ مذکور ہوتا ہے، مگر مفعول سے پہلے ’’کو‘‘ لگانا ہمیشہ ضروری نہیں ہوتا۔ مثلاً کہہ سکتے ہیں ’’اس نے قرآن کو اُتارا ‘‘ یا ’’اس نے قرآن اُتارا؍نازل کیا‘‘ یہاں فعل مجہول کا ترجمہ ’’اتارا گیا‘‘ یا ’’اُتاری گئی (کتاب)‘‘ ہونا چاہئے اور اردو کے کم از کم تین مترجمین نے اسی طرح (مجہول) کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔

______________________________________

[1]     ’’مَا‘‘ کے مختلف استعمالات کی بحث پہلے گزر چکی ہے۔ دیکھئے ۱:۲:۲ (۵)

 

[2]   فعل ’’آمن‘‘ اور اس کے صلہ کی بحث بھی پہلے ہو چکی ہے۔ دیکھئے ۲:۲ ۱:(۱) 

 

 [3]   ا س لفظ ’’نازل‘‘ کے اصل معنی تو ہیں ’’نازل ہونے والا۔ اترنے والا‘‘ تاہم اردو میں ’’نازل ہونا یا کرنا‘‘  ’’اترنا یا اتارنا‘‘ کے معنوں میں مستعمل ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں