[وَاللّٰهُ]’’وَ‘‘ یہاں بلحاظ معنی عاطفہ بھی ہوسکتی ہے اور مستأنفہ بھی۔ اور اسم ِجلالت (اللّٰہ) پر ’’بسم اللّٰہ‘‘ کے ضمن میں بات ہوچکی ہے[۱:۱:۱(۲) میں]
۱:۱۴:۲(۱۱) [مُحِيْطٌ] کا مادہ ’’ح و ط‘‘ اور وزن اصلی ’’مُفْعِلٌ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’مُحْوِطٌ‘‘تھی۔ جس میں حرف علت ’’وِ‘‘کی حرکت کسرہ(ــــــِــــ)اس کے ماقبل ساکن حرف صحیح"حْ" کو دے کر اب اس "و" کو اپنے ماقبل کی حرکت (ــــــِــــ) کے موافق حرف علّت ’’ی‘‘ میں بدل کر بولا اور لکھاجاتا ہےـــ اسی مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’حاط… یحُوط حَوْطًا‘‘(باب نصر سے اور دراصل حوَط یَحْوُط) بطور فعل متعدی مفعول بنفسہ کے ساتھ (بغیر صلہ کے)استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ’’حاطَہٗ‘‘ کہتے ہیں جس کے معنی ہیں ’’…کی حفاظت کرنا، … کی دیکھ بھال کرنا‘‘ اور یہی فعل (اسی باب سے) ’’باء (بِ)‘‘کے صلہ کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی ’’حاط بہٖ‘‘ بھی کہتے ہیں اور اس وقت اس کے معنی ’’…پر آپڑنا، …پر اترنا‘‘ہوتے ہیں ـــ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ (حوط)سے فعل ثلاثی مجرد کا کوئی صیغہ کہیں بھی استعمال نہیں ہوا۔
- زیر مطالعہ کلمہ ’’ مُحِيْط ‘‘اس مادہ (حوط) سے بابِ افعال کا صیغہ اسم الفاعل ہے۔ باب ِاِفعال سے فعل ’’احاط یُحِیط احاطۃً‘‘ ہمیشہ ’’باء(بِ)‘‘ کے صلہ کے ساتھ ہی استعمال ہوتا ہے یعنی ’’اَحَاط بہ‘‘ کہتے ہیں اس کے معنی ’’…کو گھیر لینا، …سے پوری طرح باخبرہونا‘‘ہوتے ہیں۔ کوئی فعل جب لازما ًکسی صلہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہو تو اس سے بننے والے اسم الفاعل اور اسم المفعول کے ساتھ بھی وہی صلہ لگتا ہے [دیکھئے ۱:۶:۱(۵)] ا س لیے یہاں مُحِيطْ بِ… آیا ہے۔ گویا یہ ’’یُحِیطُ بِ…‘‘ کے برابر ہے۔ قرآن کریم میں اس مادہ (حوط) سے صرف باب ِافعال کے ہی اَفعال اور اسماء مشتقہ کے مختلف صیغے ۲۷ جگہ آئے ہیں۔
۱:۱۴:۲(۱۲) [بِالْكٰفِرِيْنَ] میں ’’بِ‘‘ تو صلہ کی ہے(یعنی مُحِیْط کے ساتھ لگنے والی) اور لفظ ’’الکافرین‘‘ (جو معرّف باللام اور مجرور بالجر)ہے کا مادہ ’’ک ف ر‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فاعِلین‘‘ ہے اور یہ لفظ ’’کافر‘‘ کی جمع سالم ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کفَر … یکفُر کفرا (کفر کرنا، ناشکری کرنا وغیرہ)کے معانی اور طریق ِاستعمال پر البقرہ:۶[۱:۵:۲)]میں بحث ہوچکی ہے۔
- قرآن کریم میں اس فعل کے ثلاثی مجرد سے ہی افعال کے مختلف صیغے ۲۹۰جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے باب تفعیل کے صیغے ۱۴ جگہ اور مختلف اسماء مشتقہ کے صیغے ۲۲۰ کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ اس سے اس مادہ کے اَفعال اور اسماء کے قرآن کریم میں بکثرت استعمال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔