۱:۶:۱(۵) [الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ] اس لفظ میں ’’مَغْضُوْبٌ‘ (جو یہاں معرف باللام اور مجرور ’’شکل‘‘ میں ہے) کا مادہ ’’غ ض ب‘‘ اور وزن’’ مَفْعُوْلٌ ‘‘ہے یعنی یہ اسم المفعول کا صیغہ ہے ـــ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد غَضِب یَغْضَبُ غَضْبًا (باب سمع سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’بہت خشمناک ہونا‘‘ سخت غصے میں آنا‘‘ یعنی یہ ہمیشہ فعل لازم ہوتا ہے ـــ اسے متعدی بنانے کے لئے اس کے ساتھ ہمیشہ ’’علی‘‘ کا صلہ استعمال ہوتا ہے مثلا ’’غضِبَ عَلَیْہِ یا عَلٰی فَلَانٍ‘‘ (اس پر یا فلاں پر سخت ناراض ہوا)۔ (غَضِبَہٗ یا غَضِبَ ’’فلاناً‘‘ کہنا بالکل غلط ہے)
- ثلاثی مجرد سے یہ فعل بعض دوسرے صلات (’’لِ‘‘، ’’بِ‘‘ اور ’’فی‘‘) کے ساتھ بطور فعل لازم ’’… کی خاطر ناراض ہونا ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں ان معنی کے ساتھ یہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ یہ فعل بغیر صلہ کے بطور لازم صرف ایک جگہ (الشوریٰ: ۴۲) اور ’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ چھ سات جگہ آیا ہے۔
- اس طرح اس فعل سے مجہول بنانا ہو تو اسی صلہ (علی) کے ساتھ بنے گا۔ یعنی غَضِبَ علی فلانٍ‘‘ (اس نے فلاں پر غصہ کیا) کا مجہول ہوگا ’’غُضِبَ عَلی فُلانٍ‘‘ (فلاں پر غضب /غصہ کیاگیا) غصہ کرنے والے کو ’’غاضِبٌ‘‘ اور جس پر غصہ کیا گیا اسے ’’مَغضُوبِ عَلَیہ‘‘ کہتے ہیں۔ صرف ’’مغضوب‘‘ کہنا عربی میں درست نہیں ہے۔ اگرچہ اردو میں ہم اسے اس طرح (بغیر صلہ کے) استعمال کرتے ہیں۔
- اور یہ صلہ کے بعد مفعول کے مطابق ضمیر لوٹا نے (یعنی لانے) والا قاعدہ ہر اس متعدی فعل کے اسم مفعول پر جاری ہوتا ہے جو کسی خاص صلہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہو۔ یا جسے کسی صلہ کے ذریعے متعدی بنایا جاتا ہو۔ مشارٌ الیہ، مضاف الیہ، مقسوم علیہ‘ منعم علیہ،مضروب فیہ وغیرہ اسی کی مثالیں ہیں انگریزی میں اس کی مثال Applied For) یا Refered to کی قسم کے کلمات ہیں کہ ان میں فعل کی تیسری شکل (جو اسم مفعول کے لئے آتی ہےکے ساتھ وہی صلہ (PREPOSITION) لگایا جاتا ہے جو فعل کے ساتھ لازماً آتا ہے۔)
- اس قسم کے مفعول میں تثنیہ یا جمع وغیرہ کی تبدیلی صلہ کے بعد والی ضمیر میں مطلوبہ تبدیلی کے ذریعے ظاہر کی جاتی ہے۔ یعنی منصوب علیہ کا تثنیہ ’’مغضوب علیھما‘‘ اور اس کی جمع ’’مغضوب علیھم‘‘ ہوگی خیال رہے کہ’’ مَغضُوبَان علیھِما‘‘ یا ’’مَغضُوبِینَ عَلَیھِم‘‘ نہیں کہیں گے۔ یہاں آیتِ زیر مطالعہ میں ’’المَغضُوبِ عَلَیھِم‘‘ آنے کی وجہ یہی قاعدہ ہے۔ اگر فعل ’’غضِب‘‘ بغیر صلہ کے متعدی ہوتا تو یہاں ’’غیر المغضوبین‘‘ آتا اس قاعدہ کو ذہن نشین کر لیجئے۔ آگے چل کر قرآن مجید میں اس کے استعمال کی بکثرت مثالیں سامنے آئیں گی۔
۱: ۶ :۱ (۶) [وَلَا الضَّآلِیْنَ] اس میں ’’وَ‘‘ تو عاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘ ہے ) ہے اور ’’لا‘‘ نفی کے لئے ہے۔ (بمعنی ’’نہ ہی‘‘) ان حروف (وَ اور لَا)کے استعمال پر ابھی آگے ’’الاعراب‘‘کے تحت بات ہوگی۔ ]الضَّآلِیْنَ)[جو معرف باللام ہے) کامادہ ’’ض ل ل‘‘ اور وزن (لام تعریف کے بغیر) ’’فاعِلین‘‘ ہے جس کی شکل اصلی ’’ضَالِلِین‘‘ تھی ۔ یعنی یہ اسم الفاعل کی جمع مذکر سالم (کی نصبی اور جری صورت) ہے۔ اور اس میں متحرک حرف (لام) آنے کی وجہ سے پہلے کو ساکن کرکے دوسرے میں مدغم کر دیا گیا ہے۔ (فعل مضاعف کے قاعدے کے مطابق) ــــ اور الف ماقبل مفتوح (اور اسی طرح واو ساکنہ ماقبل مضموم یا یائے ساکنہ ماقبل مکسور) کے بعد اگر ’’ء‘‘ یا کوئی حرف ساکن آجائے تو اس میں مدّ (آواز کو کھینچنا) پیدا ہوتی ہے۔ یہاں ’’ضآ‘‘ میں مدّ کی وجہ یہی قاعدہ ہے۔