اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۶

۱۲:۲  اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالۡہُدٰی ۪ فَمَا رَبِحَتۡ تِّجَارَتُہُمۡ وَ مَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۶﴾

۱:۱۲:۲       اللغۃ

 [اُولٰٓئِکَ ] اسم اشارہ بعید برائے جمع (مذکر ومونّث)ہے جس کا اردو ترجمہ ’’وہ سب‘‘ہے۔ اس کی اصل اور بناوٹ کے بارے میں دیکھئے البقرہ:۵ [۱:۴:۲(۱) میں]اور جملہ اسمائے اشارہ کے بارے میں دیکھئے البقرہ:۲[۱:۱:۲(۱)میں]

[الَّذِیۡنَ ] اسم موصول برائے جمع مذکر ہے جس کا اردو ترجمہ ’’جو لوگ کہ‘‘ یا  ’’جن لوگوں نے کہ‘‘ یا ’’جنہوں نے کہ‘‘ ہوگا۔ اسمائے موصولہ پر الفاتحہ:۷[۱:۶:۱ (۱) میں ]بات ہوچکی ہے۔

۱:۱۲:۲ (۱)      ([اشۡتَرَوُا ] کا مادہ ’’ش ر ی ‘‘ اور وزن اصلی ’’اِفْتَعَلُوْا‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’ اِشْتَرَیُوا‘‘ تھی جس میں ناقص کے قاعدے کے مطابق واو الجمع سے ماقبل والا ’’لام کلمہ‘‘ (جو یہاں ’’ی‘‘ ہے)گرگیا۔ اور اس سے ماقبل (عین کلمہ) چونکہ مفتوح ہے لہٰذا اس کی فتحہ (ــــــَــــ)برقرار رہی اور یوں لفظ ’’ اشْتَرَوُا ‘‘ بن گیا۔ جس کو بصورت وصل (جب وقف نہ کیا جائے)سابقہ کلمہ (الذین)کے ساتھ مل کر پڑھنے کے لیے ابتدائی ھمزۃ الوصل تلفظ میں نہیں آتا بلکہ ’’نَشْ‘‘ پڑھا جاتا ہے اور اسی (اِشْتَرَوْا) کو مابعد والے کلمہ (الضللۃ) سے ملانے کے لیے آخری ساکن واو (وْ) کو حرکت ضمہ(ـــــُـــــ) دی جاتی ہے ۔[1]  (اور تلفظ میں لفظ ’’الضلالۃ‘‘ کا ابتدائی ھمزۃ الوصل بھی گرجاتا ہے) تلفظ میں ساقط تمام حروف علامات ِضبط سے خالی رکھے جاتے ہیں۔

  • اس مادہ (ش ری) سے فعل ثلاثی مجرد ’’شرَی… یشرِیْ شِرًی‘‘(عموماً باب ضرب سے)آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی تو ہیں ’’…کو بیچ دینا‘‘۔ کبھی یہ ’’خریدلینا‘‘کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم زیادہ تر اس کے معنی ’’بیچ دینا ‘‘ ہی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مادہ (شری)اس باب (ضرب) سے بھی اور باب سمِعَ سے بھی بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مگر قرآن کریم میں اس فعل (ثلاثی مجرد) کے ماضی اور مضارع کے مختلف صیغے جو کُل چار جگہ آئے ہیں، ہر جگہ یہ باب ضرب سے اور ’’بیچنا‘‘ کے معنوں میں ہی آئے ہیں۔

__________________________

   [1] اور یہ ضمہ (ـــــُـــــ) اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ واو الجمع ہے اگر اصلی (مادہ کی) واو ساکن ہو تو اسے عام قاعدے (اذا حُرِّکَ حُرِّکَ بالکسر) کے تحت کسرہ (ــــــِــــ) ہی سے آگے ملاتے ہیں مثلاً :’’لَوِاسْتَطَعْنَا‘‘ کی ’’لَوْ‘‘ والی واوساکنہ میںـــ بعض نحویوں نے یہاں واو کو مضموم کرکے آگے ملانے کی کچھ اور وجوہ بھی بیان کی ہیں (بلکہ دور کی کوڑی لائے ہیں)آپ چاہیں تو دلچسپی کی خاطر دیکھئے ابن الانباری (البیان) ج۱ص۵۸، عکبری (التبیان) ج۱ ص۳۲ اور القیسی (مشکل) ج۱ ص۲۶۔

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں