۱:۹:۲(۲) [قِيْلَ] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فُعِلَ‘‘ ہے اس کی اصلی شکل ’’قُوِلَ‘‘ تھی۔عربوں کی زبان پر واوِ مکسورہ ماقبل مضموم کا تلفظ ثقیل (گراں) گزرتا ہے۔ اس کے لیے وہ یا تو ’’واو‘‘ کو ساکن کردیتے ہیں۔ چنانچہ بعض قبائل اسے ’’قُوْلَ ‘‘ بولتے ہیں [1] تاہم اکثر یہاں ’’واو‘‘ کو بھی ’’یاء‘‘ (ی) میں بدل دیتے ہیں اور پھر اس ’’ی‘‘ سے پہلے اس کے موافق حرکت یعنی کسرہ (ــــــِــــ) دے دیتے ہیں اور یوں یہ لفظ ’’ قِيْلَ ‘‘ بن جاتا ہے۔ اور یہی لغات زیادہ فصیح سمجھی جاتی ہے۔ اس مادہ (قول) سے فعل ثلاثی مجرد ’’قال یقول قولاً‘‘ (نصر سے) بمعنی ’’کہنا، بات کرنا‘‘ آتا ہے اس کے معنی اور طریقِ استعمال وغیرہ پر پہلے البقرہ:۸ میں بات ہوچکی ہے۔[دیکھیے ۱:۷:۲(۵)]۔زیر مطالعہ لفظ (قِيْلَ) اس فعل مجرد سے ماضی مجہول کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے اور اس کا ترجمہ ’’کہا گیا‘‘ ہونا چاہئے۔ مگر اس سے پہلے ’’اِذا‘‘ ظرفیہ شرطیہ آجانے کی وجہ سے اب اس کا ترجمہ حال یا مستقبل کے ساتھ ہوگا۔ یعنی ’’جب بھی کہا جاتا ہے‘‘ یا ’’جب بھی کہا جائے گا‘‘۔
[لَھُمْ] جو لَ+ھم کا مرکب ہے۔ اس میں ’’لَ‘‘ تو لام الجر ّ ہےجو ضمائر کے ساتھ مفتوح آتی ہے۔ اور ’’ھم‘‘ ضمیر مجرور ہےـــ یہاں ’’لام‘‘ فعل ’’قال‘‘ کے ساتھ استعمال ہونے والا صلہ ہے [تفصیل کے لیے دیکھیے ۱:۲:۱(۲)]خیال رہے کہ جب ’’ قال ‘‘بطور فعل مجہول استعمال ہو جس سے بات کی جائے وہ کوئی ضمیر ہوتو دوسرے افعال کی طرح اس کی گردان قِیْل، قِیْلَا، قِیْلُوْا … وغیرہ استعمال نہیں ہوتی کیونکہ اس کے مفعول (جس سے بات کی جائے) سے پہلے لام الجر بطور صلہ آتا ہے اور صلہ کے ساتھ استعمال ہونے والے فعل کا مجہول اپنے صلہ کے ساتھ ضمیروں کے بدلنے سے استعمال ہوتا ہے مثلاً کہیں گے۔ قِیْلَ لَہُ۔ قِیْلَ لَھُمَا، قِیْلَ لھم، قیل لھَا… الخ ـــ صلہ کے ساتھ استعمال ہونے والے فعل کے مجہول (مبنی للمفعول) استعمال کی ایک دوسری مثال اور وضاحت کے لیے دیکھیے الفاتحہ :۷ میں ’’غضب‘‘ کی بحث[۱:۶:۱ (۵) میں ]اس طرح یہاں ’’لَھُمْ‘‘ کا ترجمہ ’’ان کے لیے‘‘ کی بجائے ’’ان کو ‘‘ یا ’’ان سے‘‘ہوگا۔
۱:۹:۲(۳) [لَا تُفْسِدُوْا] اس کامادہ ’’ف س د‘‘ اور وزن ’’لَا تُفْعِلُوْا‘‘ ہے۔ جس کے شروع میں ’’لَا‘‘ برائے ’’نھی‘‘ ہے۔ یعنی یہ فعل نھی کا صیغہ ہےـــ اس مادہ سےفعل ثلاثی مجرد ’’فسَد یفسُد فسادًا‘‘ (زیادہ تر باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہوتے ہیں: ’’بگڑ جانا، خراب ہوجانا‘‘ پھر اس سے ’’خوبیوں سے خالی ہونا، بُری حالت میں ہونا، حدِ اعتدال سے گزرنا، نظام میں گڑ بڑ ہونا، بربادی اور تباہی کی حالت میں ہونا‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور ان ہی معنوں کے لئے یہ بعض دفعہ باب ’’ضَرب‘‘ اور باب ’’کرُم‘‘ سے بھی آتا ہے۔ اور یہ ہمیشہ بطور فعل لازم ہی آتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل (ثلاثی مجرد) کا ماضی کا صیغہ تین جگہ (البقرہ:۲۵۱، الانبیاء:۲۲ اور المؤمنون:۷۱) پرآیا ہے (ہر جگہ ماضی مفتوح العین کے ساتھ) ۔قرآن کریم میں اس مادہ سے زیادہ تر باب اِفعال سے مختلف افعال اور دیگر مشتقات استعمال ہوئے ہیں۔ (۳۶ جگہ) سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔
________________________________
[1] دیکھئے اعراب القرآن (للنحاس) ج۱ ص ۱۱۸