اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت ۸۴ تا  ۸۶

۵۱:۲       وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَکُمۡ لَا تَسۡفِکُوۡنَ دِمَآءَکُمۡ وَ لَا تُخۡرِجُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ ثُمَّ اَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَشۡہَدُوۡنَ ﴿۸۴﴾ثُمَّ اَنۡتُمۡ ہٰۤـؤُلَآءِ تَقۡتُلُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ وَ تُخۡرِجُوۡنَ فَرِیۡقًا مِّنۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِہِمۡ ۫ تَظٰہَرُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ ؕ وَ اِنۡ یَّاۡتُوۡکُمۡ اُسٰرٰی تُفٰدُوۡہُمۡ وَ ہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیۡکُمۡ اِخۡرَاجُہُمۡ ؕ اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا بِالۡاٰخِرَۃِ ۫ فَلَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذَابُ وَ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ ﴿٪۸۶﴾ 

۱:۵۲:۲       اللغۃ

مربوط مضمون ہونے کی بناء پر ہم نے اس قطعہ میں تین آیات کو شامل کیا ہے اور ایک آیت کی طوالت کے باعث یہ (زیر مطالعہ) قطعہ آیات بھی ذرا طویل ہوگیا ہے۔ تاہم اس قطعہ کے قریباً پچاس سے زائد کلمات میں سے بیشتر پہلے ہی زیر بحث آچکے ہیں، بلکہ نئے (پہلی دفعہ آنے والے) مادے اس میں کل آٹھ نو ہی ہیں۔ بہر حال کلمات کی لغوی تشریح کی تفصیل یوں ہے۔

[وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ] قریباً یہی  عبارت گزشتہ قطعہ آیات [۱:۵۱:۲]میں گزر چکی ہے، صرف یہ فرق ہے کہ یہاں ’’میثاق‘‘ کے بعد مضاف الیہ ضمیر ’’کُمْ‘‘ ہے جب کہ گزشتہ قطعہ (۵۱:۲)میں اس کا مضاف الیہ ’’بنی اسرائیل‘‘ تھا۔ اس عبارت کے تمام کلمات کی الگ الگ لغوی تشریح کے گزشتہ حوالے بھی اسی [۱:۵۱:۲]میں دئیے جا چکے ہیں۔

  • عبارت کا لفظی ترجمہ ہے ’’او رجب ہم نے لیا عہد تمہارا‘‘ یعنی ’’جب ہم نے تم سے میثاق/ عہد/ قول وقرار/ پکا قول لیا‘‘ مخاطب اس میں بھی بنی اسرائیل ہی ہیں۔

[لَاتَسْفِکُوْنَ دِمَاءَکُمْ] یہ بھی ایک جملہ بنتا ہے جس کے پہلے حصے ’’لا تسفِکونَ‘‘ کا مادہ ’’س ف ک‘‘ اور وزن (لا نافیہ بمعنی ’’نہیں‘‘ نکال کر) ’’تَفْعِلُوْنَ‘‘ بنتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد’’سَفَکَ. . . . .یَسْفِکُ (بہانا ۔گرانا (خون)‘‘ کے باب، معنی و استعمال پر البقرہ:۳۰ [۱:۲۱:۲ (۵)]میں بات ہوچکی ہے۔ گویا ’’لاتَسْفِکُوْنَ‘‘ اس فعل مجرد سے فعل مضارع منفی ’’بِلَا‘‘  کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس کا ترجمہ ہے ’’تم نہیں بہاؤ گے‘‘۔ کیا نہیں بہاؤگے؟ یہ آگے بیان ہوا ہے۔ ’’دِمَاءَکُمْ‘‘ کی آخری ضمیر مجرور ’’کُمْ‘‘ بمعنی ’’تمہارا/ تمہارے/ تمہاری‘‘ ہے اور لفظ ’’دمَاءٌ‘‘کا مادہ ’’د م ی‘‘ اور وزن’’فِعَالٌ‘‘ ہے۔ اصلی شکل ’’دِمَایٌ‘‘ تھی جس میں الف ممدودہ کے بعد آنے والی ’’ی‘‘ کو ’’ء‘‘ میں بدل کر لکھا اور بولا جاتا ہے۔ یہ لفظ ’’دَمٌ‘‘ (بمعنی خون/ لہو) کی جمع مکسر ہے۔ اس لفظ کی مکمل لغوی تشریح بھی البقرہ:۳۰ [۱:۲۱:۲ (۶)]میں گزر چکی ہے۔ یہاں ’’دِمَاء کم‘‘ کا ترجمہ ہے’’ تمہارے  خون‘‘۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں